باب: غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: A slave or a manumitted slave can lead the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیوں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلام اگر قرآن شریف کا زیادہ عالم ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور جہری نمازوں میں وہ مصحف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وصلہ ابوداود فی کتاب المصاحف من طریق ایوب عن ابن ابی ملیکۃ ان عائشۃ کان یومہا غلامہا ذکوان فی المصحف و وصلہ ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکۃ عن عائشۃ انہا اعتقت غلاما لہا عن دبر فکان یومہا فی رمضان فی المصحف ووصلہ الشافعی و عبدالرزاق من طریق اخریٰ عن ابن ابی ملیکۃ انہ کان یاتی عائشۃ باعلی الوادی ہو و ابوہ و عبید بن عمیر و المسور بن مخرمۃ و ناس کثیر فیومہم ابوعمرو و مولیٰ عائشۃ و ہو یومئذ غلام لم یعتق و ابو عمر و المذکور ہو ذکوان ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبا رت کا یہی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے غلام ابوعمرو ذکوان نامی رمضان شریف میں شہرسے دور وادی سے آتے، ان کے ساتھ ان کا باپ ہوتا اور عبید بن عمیر اور مسور بن مخرمہ اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوجاتے۔ اور وہ ذکوان غلام قرآن شریف دیکھ کر قرات کرتے ہوئے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں ان کو آزاد بھی کر دیا تھا۔ چونکہ روایت میں رمضان کا ذکر ہے لہٰذا احتمال ہے کہ وہ تراویح کی نماز پڑھایا کرتے ہوں اور اس میں قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے ہوں۔ اس روایت کو ابوداود نے کتاب المصحف میں اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق وغیرہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: استدل بہ علی جواز القراۃ للمصلی من المصحف و منع عنہ اخرون لکونہ عملاً کثیرا فی الصلوٰۃ ( فتح الباری ) یعنی اس سے دلیل لی گئی ہے کہ مصلی قرآن شریف دیکھ کر قرات جوازاً کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں نے اسے جائز نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ نماز میں عمل کثیر ہے جو منع ہے۔تحریف کا ایک نمونہ:ہمارے محترم علمائے دیوبند رحمہم اللہ اجمعین جو بخاری شریف کا ترجمہ اور شرح شائع فرما رہے ہیں۔ ان کی جرات کہئے یا حمایت مسلک کہ بعض بعض جگہ ایسی تشریح کر ڈالتے ہیں جو صراحتاً تحریف ہی کہنا چاہئے۔ جس کا ایک نمونہ یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ صاحب تفہیم البخاری دیوبندی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ “ حضرت ذکوان کی نماز میں قرآن مجید سے قرات کا مطلب یہ ہے کہ دن میں آیتیں یاد کر لیتے تھے اور رات کے وقت انہیں نمازمیں پڑھتے تھے۔ ( تفہیم البخاری، پ:3 ص:92 )ایسا تو سارے ہی حفاظ کرتے ہیں کہ دن بھر دور فرماتے اور رات کو سنایا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ذکوان بھی ایسا ہی کرتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کی راویوں کو کیا ضرورت تھی، پھر روایت میں صاف فی المصحف کا لفظ موجود ہے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے چونکہ مسلک حنفیہ میں ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ا س لیے تفہیم البخاری کو اس روایت کی تاویل کرنے کے لیے ا س غلط تشریح کاسہارا لینا پڑا۔ اللہ پاک علماءدین کو توفیق دے کہ وہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو محسوس فرمائیں۔ آمیناگر مقتدیوں میں صرف کوئی نابالغ لڑکا ہی زیادہ قرآن شریف جاننے والا ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے مگر فقہائے حنفیہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ مطلقاً منع کا فتوی دیتے ہیں جو غلط ہے۔
703.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی مدینہ آمد سے قبل جب اولین مہاجرین قباء کے مقام "عصبہ" پر پہنچے تو ان کی امامت سالم مولی ابوحذیفہ ؓ کیا کرتے تھے۔ انہیں سب سے زیادہ قرآن یاد تھا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ ؓ جن اصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی امامت کراتے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت ابو سلمہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث :7175) حضرت ابوبکر ؓ کا ان میں موجود ہونا محل نظر ہے، کیونکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے جبکہ روایت کے حوالے سے یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس کا امام بیہقی نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت سالم ؓ ہجرت کے بعد ان کی جماعت کرواتے تھے ممکن ہے کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ بھی ان میں موجود ہوں۔ والله أعلم۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ اس کی مناسبت یہ ہے کہ تمام بڑے بڑے قریشی صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم کو امامت کے لیے اپنے آپ پر مقدم کیا، اس لیے غلام کی امامت درست ہے، نیز اس سے عنوان کا دوسراحصہ بھی ثابت ہوگیا کہ غلام کو بلاوجہ امامت سے نہ روکا جائے۔ (فتح الباري:241/2) واضح رہے کہ حضرت سالم ؓ دراصل ایک انصاری عورت کے غلام تھے، اس نے آپ کو آزاد کردیا تھا لیکن وہ آزادی سے قبل ہی لوگوں کی امامت کراتے تھے۔ آزادی کے بعد حضرت ابو حذیفہ ؓ نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی لیے آپ کو سالم مولی ابو حذیفہ کہا جاتا تھا۔ غلام کی امامت جمہور کے نزدیک درست ہے۔ صرف امام مالک سے اس موقف کی مخالفت منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ غلام، آزاد لوگوں کا امام نہ بنے۔ ہاں، اگر وہ عالم اورقاری ہو اور مقتدی ایسے نہ ہوں تو ایسے حالات میں اسے امام بنایا جاسکتا ہے، لیکن جمعہ کے لیے پھر بھی امام بنانا صحیح نہیں، کیونکہ جمعہ غلام پر فرض نہیں ہے۔ علامہ اشہب مالکی ؒ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کے لیے بھی غلام کو امام بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ جب وہ شریک جمعہ ہوگا تو اس سے فرض ہی ادا ہوگا۔ (فتح الباري:239/2) (2) بعض حضرات نے نابالغ کی امامت کو ناجائز کہا ہے۔ وہ ایک حدیث پیش کرتے ہیں جسے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیا ہے کہ بچہ بالغ ہونے تک امامت نہ کرائے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عمرو بن سلمہ ؓ اپنی قوم کی امامت کراتے تھے جبکہ ان کی عمر سات سال تھی۔(صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4302) حضرت عمرو بن سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے والد کو کہا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، عالم ہو۔ جب میری قوم نے دیکھا کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا قرآن کا عالم وحافظ نہیں تو انھوں نے مجھے جماعت کے لیے آگے کردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4302) اس واضح حدیث کے باوجود فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے بچے کی امامت کو صحیح احادیث سے ثابت کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
684
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
692
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
692
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
692
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے پانچ قسم کے لوگوں کی امامت پر بحث کی ہے،یعنی غلام،آزاد کردہ غلام، ولد الزنا، اعرابی اور نابالغ لڑکا۔یہ سب امامت کراسکتے ہیں یا نہیں؟اگرچہ عنوان میں جواز یا عدم جواز کی صراحت نہیں،تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے جن دلائل کا ذکر کیا ہے ان پیش نظر آپ کا رجحان جواز کی طرف ہے۔عنوان میں دومعلق روایات کو بیان کیا گیاہے:پہلی تعلیق کو ابن ابی شیبہ نے(3/306میں) موصولا بیان کیا ہے جبکہ جبکہ دوسری تعلیق حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ایک حصہ ہے جو صحیح بخاری کے باب : 46 میں گزرچکی ہے۔صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث موجود ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قوم کی امامت وہ کرائے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو۔"(صحیح مسلم ،الصلاۃ، حدیث :1532(673))اس روایت کے اطلاق سے مذکورہ پانچوں لوگوں کی امامت جائز ثابت کیا گیا ہے کیونکہ جب یہ زیادہ قرآن پڑھے ہوئے ہوں تو امام بننے کے زیادہ حق دار ہوں گے۔واضح رہے کہ ابو عمر وذکوان، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے مدبر غلام تھے۔یہ اپنے والد اور دیگر لوگوں کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے ہاں رمضان المبارک میں مدینے کی بالائی وادی سے آیا کرتے تھے اور حضرت ذکوان ان کی امامت قرآن سے دیکھ کر کراتے تھے،چنانچہ قرآن دیکھ کر جماعت کرانے میں چنداں حرج نہیں بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور اسے عادت نہ بنالیا جائے۔(فتح الباری:2/239)
اور حضرت عائشہ ؓ کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیوں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلام اگر قرآن شریف کا زیادہ عالم ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور جہری نمازوں میں وہ مصحف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وصلہ ابوداود فی کتاب المصاحف من طریق ایوب عن ابن ابی ملیکۃ ان عائشۃ کان یومہا غلامہا ذکوان فی المصحف و وصلہ ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکۃ عن عائشۃ انہا اعتقت غلاما لہا عن دبر فکان یومہا فی رمضان فی المصحف ووصلہ الشافعی و عبدالرزاق من طریق اخریٰ عن ابن ابی ملیکۃ انہ کان یاتی عائشۃ باعلی الوادی ہو و ابوہ و عبید بن عمیر و المسور بن مخرمۃ و ناس کثیر فیومہم ابوعمرو و مولیٰ عائشۃ و ہو یومئذ غلام لم یعتق و ابو عمر و المذکور ہو ذکوان ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبا رت کا یہی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے غلام ابوعمرو ذکوان نامی رمضان شریف میں شہرسے دور وادی سے آتے، ان کے ساتھ ان کا باپ ہوتا اور عبید بن عمیر اور مسور بن مخرمہ اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوجاتے۔ اور وہ ذکوان غلام قرآن شریف دیکھ کر قرات کرتے ہوئے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں ان کو آزاد بھی کر دیا تھا۔ چونکہ روایت میں رمضان کا ذکر ہے لہٰذا احتمال ہے کہ وہ تراویح کی نماز پڑھایا کرتے ہوں اور اس میں قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے ہوں۔ اس روایت کو ابوداود نے کتاب المصحف میں اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق وغیرہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: استدل بہ علی جواز القراۃ للمصلی من المصحف و منع عنہ اخرون لکونہ عملاً کثیرا فی الصلوٰۃ ( فتح الباری ) یعنی اس سے دلیل لی گئی ہے کہ مصلی قرآن شریف دیکھ کر قرات جوازاً کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں نے اسے جائز نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ نماز میں عمل کثیر ہے جو منع ہے۔تحریف کا ایک نمونہ:ہمارے محترم علمائے دیوبند رحمہم اللہ اجمعین جو بخاری شریف کا ترجمہ اور شرح شائع فرما رہے ہیں۔ ان کی جرات کہئے یا حمایت مسلک کہ بعض بعض جگہ ایسی تشریح کر ڈالتے ہیں جو صراحتاً تحریف ہی کہنا چاہئے۔ جس کا ایک نمونہ یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ صاحب تفہیم البخاری دیوبندی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ “ حضرت ذکوان کی نماز میں قرآن مجید سے قرات کا مطلب یہ ہے کہ دن میں آیتیں یاد کر لیتے تھے اور رات کے وقت انہیں نمازمیں پڑھتے تھے۔ ( تفہیم البخاری، پ:3 ص:92 )ایسا تو سارے ہی حفاظ کرتے ہیں کہ دن بھر دور فرماتے اور رات کو سنایا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ذکوان بھی ایسا ہی کرتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کی راویوں کو کیا ضرورت تھی، پھر روایت میں صاف فی المصحف کا لفظ موجود ہے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے چونکہ مسلک حنفیہ میں ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ا س لیے تفہیم البخاری کو اس روایت کی تاویل کرنے کے لیے ا س غلط تشریح کاسہارا لینا پڑا۔ اللہ پاک علماءدین کو توفیق دے کہ وہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو محسوس فرمائیں۔ آمیناگر مقتدیوں میں صرف کوئی نابالغ لڑکا ہی زیادہ قرآن شریف جاننے والا ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے مگر فقہائے حنفیہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ مطلقاً منع کا فتوی دیتے ہیں جو غلط ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی مدینہ آمد سے قبل جب اولین مہاجرین قباء کے مقام "عصبہ" پر پہنچے تو ان کی امامت سالم مولی ابوحذیفہ ؓ کیا کرتے تھے۔ انہیں سب سے زیادہ قرآن یاد تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ ؓ جن اصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی امامت کراتے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت ابو سلمہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث :7175) حضرت ابوبکر ؓ کا ان میں موجود ہونا محل نظر ہے، کیونکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے جبکہ روایت کے حوالے سے یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس کا امام بیہقی نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت سالم ؓ ہجرت کے بعد ان کی جماعت کرواتے تھے ممکن ہے کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ بھی ان میں موجود ہوں۔ والله أعلم۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ اس کی مناسبت یہ ہے کہ تمام بڑے بڑے قریشی صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم کو امامت کے لیے اپنے آپ پر مقدم کیا، اس لیے غلام کی امامت درست ہے، نیز اس سے عنوان کا دوسراحصہ بھی ثابت ہوگیا کہ غلام کو بلاوجہ امامت سے نہ روکا جائے۔ (فتح الباري:241/2) واضح رہے کہ حضرت سالم ؓ دراصل ایک انصاری عورت کے غلام تھے، اس نے آپ کو آزاد کردیا تھا لیکن وہ آزادی سے قبل ہی لوگوں کی امامت کراتے تھے۔ آزادی کے بعد حضرت ابو حذیفہ ؓ نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی لیے آپ کو سالم مولی ابو حذیفہ کہا جاتا تھا۔ غلام کی امامت جمہور کے نزدیک درست ہے۔ صرف امام مالک سے اس موقف کی مخالفت منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ غلام، آزاد لوگوں کا امام نہ بنے۔ ہاں، اگر وہ عالم اورقاری ہو اور مقتدی ایسے نہ ہوں تو ایسے حالات میں اسے امام بنایا جاسکتا ہے، لیکن جمعہ کے لیے پھر بھی امام بنانا صحیح نہیں، کیونکہ جمعہ غلام پر فرض نہیں ہے۔ علامہ اشہب مالکی ؒ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کے لیے بھی غلام کو امام بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ جب وہ شریک جمعہ ہوگا تو اس سے فرض ہی ادا ہوگا۔ (فتح الباري:239/2) (2) بعض حضرات نے نابالغ کی امامت کو ناجائز کہا ہے۔ وہ ایک حدیث پیش کرتے ہیں جسے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیا ہے کہ بچہ بالغ ہونے تک امامت نہ کرائے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عمرو بن سلمہ ؓ اپنی قوم کی امامت کراتے تھے جبکہ ان کی عمر سات سال تھی۔(صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4302) حضرت عمرو بن سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے والد کو کہا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، عالم ہو۔ جب میری قوم نے دیکھا کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا قرآن کا عالم وحافظ نہیں تو انھوں نے مجھے جماعت کے لیے آگے کردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4302) اس واضح حدیث کے باوجود فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے بچے کی امامت کو صحیح احادیث سے ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓکی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ولد الزنا، اعرابی اورنابالغ لڑکے کی امامت بھی جائز ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے: "لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو۔" نیز غلام کو بلاوجہ جماعت کرانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا انہوں نے عبید اللہ عمری سے، انہوں نے حضرت نافع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے بھی پہلے قبا کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم ؓ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): When the earliest emigrants came to Al-'Usba a place in Quba', before the arrival of the Prophet (ﷺ)- Salim, the slave of Abu Hudhaifa, who knew the Qur'an more than the others used to lead them in prayer.