تشریح:
(1) امام محترم ہوتا ہے۔ وہم ہو سکتا ہے کہ شاید اس کی شکایت کرنا بے ادبی ہو، نیز حدیث میں ہے کہ منافقین پر نماز کی ادائیگی بہت بھاری ہوتی ہے، اس سے بھی شبہ ہوسکتا ہے کہ نماز کے متعلق شکایت کرنا درست نہیں کیونکہ یہ خبر محض ہے۔ امام بخاری ؒ کی دقیقہ رسی اور نکتہ آفرینی ملاحظہ کریں کہ انھوں نے باب قائم کرکے متنبہ فرمایا کہ اگر نماز مقتدی حضرات کی گردانی کا باعث ہوتو اس کی شکایت کی جا سکتی ہے۔
(2) عام طور پر یہ بات باعث خلجان ہے کہ نماز جیسی جلیل القدر عبادت، اس کے کسی رکن میں طوالت کسی مومن مخلص کے لیے وجہ گرانی کیوں ہو؟ رسول اللہ ﷺ سے اجازت ملنے پر یہ خلجان باقی نہیں رہا۔ امام بخاری ؒ نے حدیث سے اس قسم کی شکایت کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔ اس عنوان اور حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی امر خواہ کتنا ہی بڑا خیر کا ہو اور اس سے روکنے میں کتنی ہی نفس پر گرانی ہو مگر کسی صحیح ضرورت کے پیش نظر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے اور اس سے روکا بھی جاسکتا ہے۔