باب: غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: A slave or a manumitted slave can lead the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیوں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلام اگر قرآن شریف کا زیادہ عالم ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور جہری نمازوں میں وہ مصحف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وصلہ ابوداود فی کتاب المصاحف من طریق ایوب عن ابن ابی ملیکۃ ان عائشۃ کان یومہا غلامہا ذکوان فی المصحف و وصلہ ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکۃ عن عائشۃ انہا اعتقت غلاما لہا عن دبر فکان یومہا فی رمضان فی المصحف ووصلہ الشافعی و عبدالرزاق من طریق اخریٰ عن ابن ابی ملیکۃ انہ کان یاتی عائشۃ باعلی الوادی ہو و ابوہ و عبید بن عمیر و المسور بن مخرمۃ و ناس کثیر فیومہم ابوعمرو و مولیٰ عائشۃ و ہو یومئذ غلام لم یعتق و ابو عمر و المذکور ہو ذکوان ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبا رت کا یہی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے غلام ابوعمرو ذکوان نامی رمضان شریف میں شہرسے دور وادی سے آتے، ان کے ساتھ ان کا باپ ہوتا اور عبید بن عمیر اور مسور بن مخرمہ اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوجاتے۔ اور وہ ذکوان غلام قرآن شریف دیکھ کر قرات کرتے ہوئے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں ان کو آزاد بھی کر دیا تھا۔ چونکہ روایت میں رمضان کا ذکر ہے لہٰذا احتمال ہے کہ وہ تراویح کی نماز پڑھایا کرتے ہوں اور اس میں قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے ہوں۔ اس روایت کو ابوداود نے کتاب المصحف میں اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق وغیرہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: استدل بہ علی جواز القراۃ للمصلی من المصحف و منع عنہ اخرون لکونہ عملاً کثیرا فی الصلوٰۃ ( فتح الباری ) یعنی اس سے دلیل لی گئی ہے کہ مصلی قرآن شریف دیکھ کر قرات جوازاً کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں نے اسے جائز نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ نماز میں عمل کثیر ہے جو منع ہے۔تحریف کا ایک نمونہ:ہمارے محترم علمائے دیوبند رحمہم اللہ اجمعین جو بخاری شریف کا ترجمہ اور شرح شائع فرما رہے ہیں۔ ان کی جرات کہئے یا حمایت مسلک کہ بعض بعض جگہ ایسی تشریح کر ڈالتے ہیں جو صراحتاً تحریف ہی کہنا چاہئے۔ جس کا ایک نمونہ یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ صاحب تفہیم البخاری دیوبندی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ “ حضرت ذکوان کی نماز میں قرآن مجید سے قرات کا مطلب یہ ہے کہ دن میں آیتیں یاد کر لیتے تھے اور رات کے وقت انہیں نمازمیں پڑھتے تھے۔ ( تفہیم البخاری، پ:3 ص:92 )ایسا تو سارے ہی حفاظ کرتے ہیں کہ دن بھر دور فرماتے اور رات کو سنایا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ذکوان بھی ایسا ہی کرتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کی راویوں کو کیا ضرورت تھی، پھر روایت میں صاف فی المصحف کا لفظ موجود ہے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے چونکہ مسلک حنفیہ میں ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ا س لیے تفہیم البخاری کو اس روایت کی تاویل کرنے کے لیے ا س غلط تشریح کاسہارا لینا پڑا۔ اللہ پاک علماءدین کو توفیق دے کہ وہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو محسوس فرمائیں۔ آمیناگر مقتدیوں میں صرف کوئی نابالغ لڑکا ہی زیادہ قرآن شریف جاننے والا ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے مگر فقہائے حنفیہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ مطلقاً منع کا فتوی دیتے ہیں جو غلط ہے۔
704.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اپنے حاکم کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ کوئی سیاہ فام حبشی ہی تم پر حاکم بنا دیا جائے جس کا سر منقے جیسا ہو۔‘‘
تشریح:
روایت میں حبشی سے مراد حبشی غلام ہے جب کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري ،الأحکام ، حدیث:7142) اس حدیث کی باب سے یہ مناسبت ہے کہ جب ایسا غلام امیر اور والی بن جائے تو اس کی اطاعت ضروری ہے اور اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ والی اور خلیفہ کو جماعت کےلیے آگے کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اطاعت کے حکم میں اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم شامل ہے۔ (شرح الکرماني:72/5) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایاتھا کہ اگر تمھارا حکمران حبشی غلام ہوجو کتاب اللہ کے ساتھ تمھاری قیادت کرے تم نے اس کی بات ماننی اور اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اس روایت سے حدیث نبوی کی تاریخ اور اطاعت کی جہت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ حکم دیا اور کتاب اللہ کی قیادت کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 242/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
685
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
693
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
693
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
693
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے پانچ قسم کے لوگوں کی امامت پر بحث کی ہے،یعنی غلام،آزاد کردہ غلام، ولد الزنا، اعرابی اور نابالغ لڑکا۔یہ سب امامت کراسکتے ہیں یا نہیں؟اگرچہ عنوان میں جواز یا عدم جواز کی صراحت نہیں،تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے جن دلائل کا ذکر کیا ہے ان پیش نظر آپ کا رجحان جواز کی طرف ہے۔عنوان میں دومعلق روایات کو بیان کیا گیاہے:پہلی تعلیق کو ابن ابی شیبہ نے(3/306میں) موصولا بیان کیا ہے جبکہ جبکہ دوسری تعلیق حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ایک حصہ ہے جو صحیح بخاری کے باب : 46 میں گزرچکی ہے۔صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث موجود ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قوم کی امامت وہ کرائے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو۔"(صحیح مسلم ،الصلاۃ، حدیث :1532(673))اس روایت کے اطلاق سے مذکورہ پانچوں لوگوں کی امامت جائز ثابت کیا گیا ہے کیونکہ جب یہ زیادہ قرآن پڑھے ہوئے ہوں تو امام بننے کے زیادہ حق دار ہوں گے۔واضح رہے کہ ابو عمر وذکوان، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے مدبر غلام تھے۔یہ اپنے والد اور دیگر لوگوں کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے ہاں رمضان المبارک میں مدینے کی بالائی وادی سے آیا کرتے تھے اور حضرت ذکوان ان کی امامت قرآن سے دیکھ کر کراتے تھے،چنانچہ قرآن دیکھ کر جماعت کرانے میں چنداں حرج نہیں بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور اسے عادت نہ بنالیا جائے۔(فتح الباری:2/239)
اور حضرت عائشہ ؓ کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیوں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلام اگر قرآن شریف کا زیادہ عالم ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور جہری نمازوں میں وہ مصحف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وصلہ ابوداود فی کتاب المصاحف من طریق ایوب عن ابن ابی ملیکۃ ان عائشۃ کان یومہا غلامہا ذکوان فی المصحف و وصلہ ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکۃ عن عائشۃ انہا اعتقت غلاما لہا عن دبر فکان یومہا فی رمضان فی المصحف ووصلہ الشافعی و عبدالرزاق من طریق اخریٰ عن ابن ابی ملیکۃ انہ کان یاتی عائشۃ باعلی الوادی ہو و ابوہ و عبید بن عمیر و المسور بن مخرمۃ و ناس کثیر فیومہم ابوعمرو و مولیٰ عائشۃ و ہو یومئذ غلام لم یعتق و ابو عمر و المذکور ہو ذکوان ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبا رت کا یہی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے غلام ابوعمرو ذکوان نامی رمضان شریف میں شہرسے دور وادی سے آتے، ان کے ساتھ ان کا باپ ہوتا اور عبید بن عمیر اور مسور بن مخرمہ اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوجاتے۔ اور وہ ذکوان غلام قرآن شریف دیکھ کر قرات کرتے ہوئے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں ان کو آزاد بھی کر دیا تھا۔ چونکہ روایت میں رمضان کا ذکر ہے لہٰذا احتمال ہے کہ وہ تراویح کی نماز پڑھایا کرتے ہوں اور اس میں قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے ہوں۔ اس روایت کو ابوداود نے کتاب المصحف میں اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق وغیرہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: استدل بہ علی جواز القراۃ للمصلی من المصحف و منع عنہ اخرون لکونہ عملاً کثیرا فی الصلوٰۃ ( فتح الباری ) یعنی اس سے دلیل لی گئی ہے کہ مصلی قرآن شریف دیکھ کر قرات جوازاً کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں نے اسے جائز نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ نماز میں عمل کثیر ہے جو منع ہے۔تحریف کا ایک نمونہ:ہمارے محترم علمائے دیوبند رحمہم اللہ اجمعین جو بخاری شریف کا ترجمہ اور شرح شائع فرما رہے ہیں۔ ان کی جرات کہئے یا حمایت مسلک کہ بعض بعض جگہ ایسی تشریح کر ڈالتے ہیں جو صراحتاً تحریف ہی کہنا چاہئے۔ جس کا ایک نمونہ یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ صاحب تفہیم البخاری دیوبندی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ “ حضرت ذکوان کی نماز میں قرآن مجید سے قرات کا مطلب یہ ہے کہ دن میں آیتیں یاد کر لیتے تھے اور رات کے وقت انہیں نمازمیں پڑھتے تھے۔ ( تفہیم البخاری، پ:3 ص:92 )ایسا تو سارے ہی حفاظ کرتے ہیں کہ دن بھر دور فرماتے اور رات کو سنایا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ذکوان بھی ایسا ہی کرتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کی راویوں کو کیا ضرورت تھی، پھر روایت میں صاف فی المصحف کا لفظ موجود ہے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے چونکہ مسلک حنفیہ میں ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ا س لیے تفہیم البخاری کو اس روایت کی تاویل کرنے کے لیے ا س غلط تشریح کاسہارا لینا پڑا۔ اللہ پاک علماءدین کو توفیق دے کہ وہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو محسوس فرمائیں۔ آمیناگر مقتدیوں میں صرف کوئی نابالغ لڑکا ہی زیادہ قرآن شریف جاننے والا ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے مگر فقہائے حنفیہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ مطلقاً منع کا فتوی دیتے ہیں جو غلط ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اپنے حاکم کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ کوئی سیاہ فام حبشی ہی تم پر حاکم بنا دیا جائے جس کا سر منقے جیسا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
روایت میں حبشی سے مراد حبشی غلام ہے جب کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري ،الأحکام ، حدیث:7142) اس حدیث کی باب سے یہ مناسبت ہے کہ جب ایسا غلام امیر اور والی بن جائے تو اس کی اطاعت ضروری ہے اور اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ والی اور خلیفہ کو جماعت کےلیے آگے کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اطاعت کے حکم میں اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم شامل ہے۔ (شرح الکرماني:72/5) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایاتھا کہ اگر تمھارا حکمران حبشی غلام ہوجو کتاب اللہ کے ساتھ تمھاری قیادت کرے تم نے اس کی بات ماننی اور اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اس روایت سے حدیث نبوی کی تاریخ اور اطاعت کی جہت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ حکم دیا اور کتاب اللہ کی قیادت کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 242/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓکی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ولد الزنا، اعرابی اورنابالغ لڑکے کی امامت بھی جائز ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے: "لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو۔" نیز غلام کو بلاوجہ جماعت کرانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالتیاح یزید بن حمید ضبعی نے انس بن مالک ؓ سے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا: (اپنے حاکم کی) سنو اور اطاعت کرو، خواہ ایک ایسا حبشی (غلام تم پر) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور کے برابر ہو۔
حدیث حاشیہ:
اس سے باب کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ جب حبشی غلام کی جو حاکم ہو اطاعت کا حکم ہوا تو اس کی امامت بطریق اولیٰ صحیح ہو گی کیوں کہ اس زمانہ میں جو حاکم ہوتا وہی امامت بھی نماز میں کیا کرتا تھا۔ اس حدیث سے یہ دلیل بھی لی ہے کہ بادشاہ وقت سے گو وہ کیسا ہی ظالم بے وقوف ہو لڑنا اور فساد کرنا نادرست ہے بشرطیکہ وہ جائز خلیفہ یعنی قریش کی طرف سے بادشاہ بنایا گیا ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حبشی غلام کی خلافت درست ہے کیوں کہ خلافت سوائے قریشی کے اور کسی قوم کی درست نہیں ہے جیسے دوسری حدیث سے ثابت ہے (مولانا وحید الزماں مرحوم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Listen and obey (your chief) even if an Ethiopian whose head is like a raisin were made your chief."