صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
59. باب: اگر کوئی شخص امام کے بائیں طرف کھڑا ہو اور امام اسے پھر دائیں طرف کر لے تو دونوں میں سے کسی کی بھی نماز فاسد نہیں ہو گی۔
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
59. Chapter: If a man stood on the left side of the Imam and the Imam drew him to his right side, then the Salat of none of them would be invalid
باب: اگر کوئی شخص امام کے بائیں طرف کھڑا ہو اور امام اسے پھر دائیں طرف کر لے تو دونوں میں سے کسی کی بھی نماز فاسد نہیں ہو گی۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If a man stood on the left side of the Imam and the Imam drew him to his right side, then the Salat of none of them would be invalid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
709.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک رات حضرت میمونہ ؓ کے ہاں سو گیا۔ نبی ﷺ بھی اس رات ان کے پاس تھے۔ آپ نے وضو فرمایا پھر اٹھ کر نفل پڑھنے لگے۔ میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔ آپ تیرہ رکعت پڑھ کر سو گئے یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگے اور یہ آپ کی عادت تھی کہ جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ اس کے بعد مؤذن آیا، آپ تشریف لے گئے نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے جب بکیر بن عبداللہ سے یہ حدیث لی تو اس نے حضرت کریب سے براہ راست اسے بیان کیا۔
تشریح:
(1) امام احمد بن حنبل ؒ کا موقف یہ ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے جبکہ جمہور کہتے ہیں کہ اس طرح کھڑا ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے اس حدیث کو پیش کیا اور ثابت کیا ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجاتا ہے تو اس سے نماز میں کسی قسم کا فساد نہیں آتا۔ جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ امام سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جب مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی بائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، لیکن حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں عمرو بن حارث کے حوالے سے علو سند کو بیان کیا ہے، کیونکہ ان کی سند میں کریب تک صرف بکیر بن عبداللہ کا ایک واسطہ ہے، جبکہ حدیث کی بیان کردہ سند میں عمرو بن حارث کے بعد کریب تک حضرت عبدربہ بن سعید اور مخرمہ بن سلیمان کے دو واسطے ہیں۔ (فتح الباري:248/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
690
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
698
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
698
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
698
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک رات حضرت میمونہ ؓ کے ہاں سو گیا۔ نبی ﷺ بھی اس رات ان کے پاس تھے۔ آپ نے وضو فرمایا پھر اٹھ کر نفل پڑھنے لگے۔ میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔ آپ تیرہ رکعت پڑھ کر سو گئے یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگے اور یہ آپ کی عادت تھی کہ جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ اس کے بعد مؤذن آیا، آپ تشریف لے گئے نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے جب بکیر بن عبداللہ سے یہ حدیث لی تو اس نے حضرت کریب سے براہ راست اسے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام احمد بن حنبل ؒ کا موقف یہ ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے جبکہ جمہور کہتے ہیں کہ اس طرح کھڑا ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے اس حدیث کو پیش کیا اور ثابت کیا ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجاتا ہے تو اس سے نماز میں کسی قسم کا فساد نہیں آتا۔ جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ امام سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جب مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی بائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، لیکن حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں عمرو بن حارث کے حوالے سے علو سند کو بیان کیا ہے، کیونکہ ان کی سند میں کریب تک صرف بکیر بن عبداللہ کا ایک واسطہ ہے، جبکہ حدیث کی بیان کردہ سند میں عمرو بن حارث کے بعد کریب تک حضرت عبدربہ بن سعید اور مخرمہ بن سلیمان کے دو واسطے ہیں۔ (فتح الباري:248/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حماد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن حارث مصری نے عبد ربہ بن سعید سے بیان کیا، انہوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انہوں نے ابن عباس ؓ کے غلام کریب سے انہوں نے ابن عباس ؓ سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے یہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم ﷺ کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت (وتر سمیت) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریم ﷺ جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کے بعد (فجر کی) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): One night I slept at the house of (my aunt) Maimuna and the Prophet (ﷺ) was there on that night. He performed ablution and stood up for the prayer. I joined him and stood on his left side but he drew me to his right and prayed thirteen Rakat and then slept till I heard his breath sounds. And whenever he slept, he used to breathe with audible sounds. The Mu'adhdhin came to the Prophet (ﷺ) and he went out and prayed the Morning Prayer) without repeating the ablution.