تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت باریک بینی سے اپنے قائم کیے ہوئے عنوان کو ثابت کیا ہے وہ اس طرح کہ اگر قاضی کا فیصلہ ظاہر دونوں طرح نافذ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی بن جاتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پردے کا حکم نہ دیتے جب پردے کا حکم دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ صرف ظاہری جھگڑا ختم کرنے کے لیے تھا حقیقت اور باطن کو بدلنے کے لیے نہ تھا۔
2۔اگرچہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ٹھرایا لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ان کا بھائی نہیں تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اگر یہ فیصلہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوتا تو بھائی سے پردے کا حکم نہ دیا جاتا۔ واللہ أعلم۔