تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کی تھی اور اس باب میں فہم مطلق کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں کسی فضیلت کا ذکر نہیں ہے لیکن حدیث نمبر131 جو مفصل ہے، اس میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد گرامی سے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو میں سمجھ گیا تھا لیکن بڑوں کو خاموش دیکھ کرمیں بھی خاموش رہا۔ مبادا آپ کو ناگوار گزرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اگر تم اس وقت اس کا ظہار کر دیتے تو مجھے اس قدر خوشی ہوتی کہ سرخ اونٹ بھی اس خوشی کے مقابلے میں کم تر ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم میں فہم بھی ایک فضیلت کی چیز ہے۔
2۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ذہانت و فطانت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خوشئہ کھجور سے نکلنے والا مغزلایا گیا اور آپ نے اسے تناول فرمانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ نے حاضرین کے سامنے سوال کیا۔ اس مجموعی صورت حال سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ هو نہ ہو یہ کھجور کا درخت ہے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر اصحاب کی موجودگی میں لب کشائی کو نامناسب خیال کرتے ہوئے آپ خاموش رہے۔ (رضی اللہ عنہ)
3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طالب علم کو مطالعہ کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے اور قوت مطالعہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا طریقہ بھی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسبات کو مدنظر رکھا جائے اور بوقت مطالعہ اوپرنیچے سب طرف نظر رکھی جائے اور غورو فکرکیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نخلہ (کھجور کے درخت) کے متعلق سوال کیا تو اس وقت آپ اس کا گودا کھا رہے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مناسبات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال کی تہہ تک پہنچ گئے کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے۔