صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
13. باب:اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
13. بَابُ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
13. Chapter: If Allah Jalla Jalalahu wants to do good to a person, He makes him comprehend (the religion). [The understanding of the Qur'an and As-Sunna (legal ways) of the Prophet (Muhammad (saws))]
باب:اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: If Allah Jalla Jalalahu wants to do good to a person, He makes him comprehend (the religion). [The understanding of the Qur'an and As-Sunna (legal ways) of the Prophet (Muhammad (saws))])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
72.
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے دوران خطبہ میں کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کر دیتا ہے۔ اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ اور (اسلام کی) یہ جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو ان کا مخالف ہو گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم، یعنی قیامت آ جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں: (1) فقہ فی الدین کی عظمت۔ (2)۔ تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے۔ (3)۔ اس کے حاملین قیامت تک رہیں گے۔ جہاں تک اس کی عظمت کا تعلق ہے وہ تو محتاج بیان نہیں کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دینی معاملات سے بے بہرہ اور قواعد اسلام سے نابلد ہے، وہ خیرو برکت سے تہی دست ہے۔ 2۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو انسان دینی امور میں تفقہ حاصل نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ اگرچہ اس کی سند کمزور ہے تاہم اس کے معنی صحیح ہیں نیز تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے صرف محنت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو علوم دیے گئے ہیں میں انھیں تقسیم کرنے والا ہوں۔ میری طرف سے کوئی روک یا بخل نہیں ہے۔ جس قدر کسی کے دل میں اس کے حصول کی تڑپ ہوگی۔ وہ اتنا ہی ان علوم سے بہرہ ور ہوگا۔ 3۔ اس کی عظمت بایں طور بھی ہے کہ ان علوم سے فیض یاب ہونے والے تاقیامت رہیں گے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرطائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی محدثین عظام کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 216/1) امر اللہ سے مراد وہ ہوا ہے جو قرب قیامت کے وقت چلے گی اور اہل ایمان کی ارواح کو قبض کر لے گی۔ اس کے بعد صرف اشرار وکفار باقی رہ جائیں گے پھر انھی پر قیامت قائم ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
71
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
71
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
71
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
71
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
دینی معاملات میں تفقہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان قرآن و حدیث کا شوق سے مطالعہ کرے تاکہ وہ دینی امور میں صحیح چھان بین اور اصل و نقل کے فرق کو سمجھنے کے قابل ہو جائے۔ دینی بصیرت سے نابلد مدعیان جبہ ودستار کے متعلق کہا گیا ہے نیم حکیم خطرہ ایمان۔(أعاذنا الله منها)
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے دوران خطبہ میں کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کر دیتا ہے۔ اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ اور (اسلام کی) یہ جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو ان کا مخالف ہو گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم، یعنی قیامت آ جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں: (1) فقہ فی الدین کی عظمت۔ (2)۔ تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے۔ (3)۔ اس کے حاملین قیامت تک رہیں گے۔ جہاں تک اس کی عظمت کا تعلق ہے وہ تو محتاج بیان نہیں کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دینی معاملات سے بے بہرہ اور قواعد اسلام سے نابلد ہے، وہ خیرو برکت سے تہی دست ہے۔ 2۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو انسان دینی امور میں تفقہ حاصل نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ اگرچہ اس کی سند کمزور ہے تاہم اس کے معنی صحیح ہیں نیز تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے صرف محنت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو علوم دیے گئے ہیں میں انھیں تقسیم کرنے والا ہوں۔ میری طرف سے کوئی روک یا بخل نہیں ہے۔ جس قدر کسی کے دل میں اس کے حصول کی تڑپ ہوگی۔ وہ اتنا ہی ان علوم سے بہرہ ور ہوگا۔ 3۔ اس کی عظمت بایں طور بھی ہے کہ ان علوم سے فیض یاب ہونے والے تاقیامت رہیں گے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرطائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی محدثین عظام کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 216/1) امر اللہ سے مراد وہ ہوا ہے جو قرب قیامت کے وقت چلے گی اور اہل ایمان کی ارواح کو قبض کر لے گی۔ اس کے بعد صرف اشرار وکفار باقی رہ جائیں گے پھر انھی پر قیامت قائم ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فر رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فر دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے (اور یہ عالم فنا ہو جائے)۔
حدیث حاشیہ:
ناسمجھ لوگ جو مدعیان علم اور واعظ و مرشد بن جائیں نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملاخطرہ ایمان ان ہی کے حق میں کہا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyahh (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "If Allah wants to do good to a person, He makes him comprehend the religion. I am just a distributor, but the grant is from Allah. (And remember) that this nation (true Muslims) will keep on following Allah's teachings strictly and they will not be harmed by any one going on a different path till Allah's order (Day of Judgment) is established."