تشریح:
ان احادیث میں لو کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ لفظ لولا کا ذکر ہے حالانکہ ان دونوں کے معانی میں بہت فرق ہے کیونکہ لفظ لو کے معنی ایک چیز کا امتناع کسی دوسری چیز کے امتناع کی وجہ سے ہے اور لفظ لولا کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کا امتناع کسی دوسری چیز کے وجود کی بنا پر ہے لیکن دونوں کا نتیجہ اور انجام ایک ہے۔ اگر انھیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر بطور اعتراض استعمال کیا جائے توایسا کرنا شرعاً جائز نہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے کرتے ہوئے انھیں اسعتمال کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں لولا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ایک امرواقع بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ واللہ أعلم۔