قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَخْبَارِ الآحَادِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} [التوبة: 122]، «وَيُسَمَّى الرَّجُلُ طَائِفَةً لِقَوْلِهِ تَعَالَى»: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا} [الحجرات: 9]، «فَلَوِ اقْتَتَلَ رَجُلاَنِ دَخَلَ فِي مَعْنَى الآيَةِ»، وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا}، «وَكَيْفَ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ أُمَرَاءَهُ وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ، فَإِنْ سَهَا أَحَدٌ مِنْهُمْ رُدَّ إِلَى السُّنَّةِ»

7246. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ قَالَ أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ” ایسا کیوں نہیں کرتے ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ نکلیں تا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور لوٹ کر اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرائیں اس لئے کہ وہ تباہی سے بچے رہے “ اور ایک شخص کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں جیسے سورۃ حجرات کی اس آیت میں فرمایا ” اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑ پڑیں اور اس میں وہ دو مسلمان بھی داخل ہیں جو آپس میں لڑ پڑیں ( تو ہر ایک مسلمان ایک طائفہ ہوا ) اور ( اسی سورت میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” مسلمانو! ( جلدی مت کیا کرو ) اگر تمہارے پاس بدکارشخص کچھ خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو “ ۔ اور اگر خبر واحد مقبول نہ ہوتی تو آنحضرت ﷺایک شخص کو حاکم بنا کر اور اس کے بعد دوسرے شخص کو کیوں بھیجتے اور یہ کیوں فرماتے کہ اگر پہلا حاکم کچھ بھول جائے تو دوسرا حاکم اس کو سنت کے طریق پر لگا دے ۔ تشریح : جن کو اصلاح اہلحدیث میں خبر واحدکہتے ہیںاکثر صحیح احادیث اسی قسم کی ہیں کہ ان کو ایک دو بار صحابہ یا ایک یا دو تابعیوں نے روایت کیا ہے ۔ خبر واحد کاجب روای سچا اور ثقہ اور معتبر ہو تو اس کا قبول کرنا تمام اماموں نے واجب رکھا ہے ۔ اور ہمیشہ قیاس کو ایسی حدیث کے مقابل ترک کردیا ہے ۔ بلکہ امام ابو حنیفہ نے تو اور زیادہ احتیاط کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرسل اور ضعیف حدیث یہاں تک کہ صحابی کا قول بھی حبت ہے اور قیاس کو اس کے مقابلہ میں ترک کردیں گے ۔ اللہ تعالیٰ امام ابو حنیفہ  کو جزائے خیر دے وہ اہلسنت یعنی اہل حدیث کے پیشوا تھے۔ ہمارے زمانے میں جو لوگ اپنے تئیں حنفی کہتے ہیں اور صحیح حدیث کو سن کر بھی قیاس کی پیروی نہیں چھوڑتے وہ سچے حنفی نہیں ہیں بلکہ بد نام کنندہ نکونامے چند امام کے جھوٹے نام لیوا ہیں ۔ سچے حنفی اہل حدیث ہیں جو امام ابو حنیفہ  کی ہدایت اور ارشاد کے مطابق چلتے ہیں اور تمام عقائد اور صفات اللہ اور اصول میں ان کے ہم اعتقاد اور ہم عمل ہیں ۔ اس آیت ذیل سے خبر واحد کا حجت ہونا نکلتا ہے کیونکہ طائفہ ایک شخص کو بھی کہہ سکتے ہیں اور بعضفے فرقہ میں صرف تین ہی آدمی ہوتے ہیں ۔ اس دوسری آیت سے صاف نکلتا ہے کہ اگر نیک اور سچا اور معتبر شخص کوئی خبر لائے تو اس کو مان لینا چاہئیے۔ اس میں تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر اس کا خبر کا بھی یہی حکم ہو جو بد کار کی خبر کا ہے تو نیک اور بد کار دنوں یکساں ہونا لازم آئے گا ۔ ابن کثیر نے کہا آیت سے یہ بھی نکلا کہ فاسق اور بد کار شخص کی روایت کی ہوئی حدیث حجت نہیں ‘ اسی طرح مجہول الحال کی ۔ حدیث مذکور سے ظاہر ہوا کہ اگر خبر واحد قبول کے لائق نہ ہوتی تو ایک شخص واحد کو حاکم بنا کر بھیجنا یا ایک شخص واحد کا دوسرے کی غلطی ظاہر کرنا اس کو ٹھیک رستے پر لگانا اس کے کچھ معنی نہ ہوتے ۔

7246.

سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان ہم عمر تھے۔ ہم آپ کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے رہے۔ رسول اللہ ﷺ بڑے رحم دل تھے۔ جب آپ نے سمجھا کہ ہمارا گھر جانے کا شوق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ ہم اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں تو ہم نے آپ کو بتایا۔ آپ نےفر مایا: ”اب تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو۔ انہیں اسلام سکھاؤ اور دین کی باتیں بتاؤ۔“ آپ نے بہت سی باتیں بتائیں جن میں سے مجھے کچھ یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ نے فرمایا: ”اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔“