تشریح:
1۔حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی وفد کی صورت میں غزوہ تبوک سے پہلے حاضر خدمت ہوئے اورغزوہ تبوک رجب نو(9) ہجری میں ہوا تھا۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریباً بیس دن رہے۔ ان کی واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دیں۔ چونکہ یہ حضرات قرآءت میں برابر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جماعت وہ کرائے جو عمر میں بڑا ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث 631) البتہ اذان دینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں اسے کوئی پابندی نہیں اسے کوئی بھی دے سکتا ہے۔
2۔ایک آدمی کی اذان پر نماز پڑھنا درست ہے۔ یہ خبر واحد کے قابل حجت ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ایک آدمی کی اذان پر نماز پڑھنا اور روزہ افطار کرنا اگر صحیح ہے تو اس کی بیان کردہ روایت کیوں قابل قبول نہیں؟