تشریح:
1۔اس حدیث میں کتاب وسنت کی اہمیت اور انھیں عمل میں لانے کی ترغیب بیان کی گئی ہے جو عنوان کا مقصد ہے۔ مزید برآں بدعت کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ بدعت شرعی یہ ہے کہ کتاب وسنت میں جس کی کوئی بنیاد نہ ہو اور قرون ثلاثہ کے بعد اسے دین کا حصہ بنا دیا جائے۔ ایسا کرنا جرم ہے کیونکہ دین میں اصل توقیف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی راہ نکالی جو اس (دین) سے نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2697) نیز فرمایا: ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جوہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ بھی مردود ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأقضیة، حدیث: 4493(1718)
2۔بدعت کی دو قسمیں ہیں: الف۔ اقوال واعتقاد میں بدعت: اس میں گمراہ فرقوں کے اقوال وعقائد شامل ہیں۔ ب۔ عبادات میں بدعت: اللہ تعالیٰ کی عبادت غیر شرعی طریقے سے کرنا۔ اس کی چند قسمیں ہیں: ©۔ نفس عبادت ہی بدعت ہو، مثلاً: کوئی ایسی عبادت ایجاد کرلی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں، جیسے عید میلا۔ ©۔ مشروع عبادت میں اضافہ کر دیا جائے، مثلاً: ظہر یا عصر کی نماز میں پانچویں رکعت کا اضافہ کرنا۔ ©۔ عبادت مشروع ہو لیکن اس کی ادائیگی کا طریقہ غیر شرعی ہو، مثلاً: مشروع اذکارکو اجتماعی آواز سے پڑھنا۔ ©۔ مشروع عبادت کو ایک وقت کے ساتھ خاص کر دیا جائے، مثلاً: شعبان کی پندرھویں شب کو نماز کا اہتمام کرنا کیونکہ نماز تو مشروع ہے لیکن اسے کسی وقت کے ساتھ خاص کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ بہرحال حدیث بالا کے مطابق دین میں ہرنیا کام بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔