تشریح:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں۔ امام، استاد اور بزرگ کی بات کوچھوڑا جا سکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جاسکتا، نیز اس حدیث کا آخری حصہ بڑا معنی خیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کو بُرے سے الگ کرنے والے ہیں، یعنی مومن اور کافر، نیک اوربد، سعادت مند اور بدبخت کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والے ہیں۔ اس موضوع پر ہم کچھ تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال سے اس فرق کی وضاحت پیش خدمت ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جورکوع اورسجود کی صحیح ادائیگی کے بغیر نماز پڑھتا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کے وہ چالیس سال سے اس طرح نماز پڑھا رہا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تیری اسی حالت پر موت آگئی تو وہ فطرت اسلام کے خلاف ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 791) کیونکہ اس کی نماز سنت کے خلاف تھی، اس لیے کہ اس کی موت کو بی فطرت اسلام کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سنت کے مطابق وضوکرے، پھرسنت کے مطابق صرف دورکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 160) سنت پر عمل کرنے کی برکت سے صرف دورکعت ادا کرنا سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ سنت اور غیر سنت پر عمل کرنے میں یہی فرق ہے جو مذکورہ بالاحدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔