قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} [المائدة: 101]

7294. حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح و حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ وَذَكَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا قَالَ أَنَسٌ فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَقَالَ أَنَسٌ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ النَّارُ فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ قَالَ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّي فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اسی طرح بے فائدہ سختی اٹھا نا اور وہ باتیں بنا نا جن میں کوئی فائدہ نہیں اور اللہ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر بیان کی جائیں تو تم کو بری لگیں ۔ جب تک کوئی حادثہ نہ ہو تو خواہ مخواہ فرضی سوالات کرنا منع ہے جیسا کہ فقہاءکی عادت ہے کہ وہ اگر مگر سے بال کی کھال نکالتے رہتے ہیں ۔

7294.

سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن زوال آفتاب کے بعد باہر تشریف لائے۔ ظہر کی نماز ادا کی اور سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے تو قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات رونما ہوں گے، پھر فرمایا: ”تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہو تو اسے اجازت ہے۔ اللہ کی قسم! آج تم مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں تمہیں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اس جگہ پر ہوں۔“ سیدنا انس ؓ نے کہا کہ انصار بہت زیادہ رونے لگے لیکن رسول اللہ ﷺ باربار یہی فرماتے تھے: ”مجھ سے پوچھو“ چنانچہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور پوچھا : اللہ کے رسول! میرا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ آپ نےفرمایا: ”تیرا ٹھکانا دوزخ ہے۔“ پھر سیدنا عبداللہ بن حذافہ ؓ کھڑے ہوئے اور پوچھا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارے والد حذافہ ہیں۔“ پھر آپ مسلسل یہی کہتے رہے۔ ”مجھ سے سوال کرو، مجھ سے پوچھو۔“ آخر کار سیدنا عمر بن خطاب ؓ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہا: ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے رب ہونے کی حیثیت سے راضی ہیں، اسلام سے دین ہونے کے اعتبار سے خوش ہیں اور سیدنا محمد ﷺ سے رسول ہونے کی حیثیت سے خوش ہیں۔ جب سیدنا عمر ؓ نے کہا تو رسول اللہﷺ خاموش ہوگئے پھر فرمایا: ”تم خوش ہوئے یا نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرے ابھی ابھی اس دیوار کی جانب جنت اور دوزخ دونوں پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے آج کی طرح خیر وشر کو کبھی نہیں دیکھا۔“