تشریح:
1۔یہودیوں نے باہمی مشورے سے یہ بات طے کی کہ نبی آخرالزمان ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے روح کے متعلق سوال کیا جائے، اگرروح کی حقیقت بیا ن کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دانشور اور حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں کیونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو پیغمبر ہیں۔ کچھ یہودیوں نے کہا: ان سے یہ سوال نہ کیا جائے کیونکہ اگر انھوں نےروح کی حقیقت بیان نہ کی تو یہ ان کے رسول ہونے کا ایک اور ثبوت مل جائے گا جو تمھیں ناگوار گزرے گا۔
2۔حقیقت یہ ہے کہ اس روح کی ماہیت کا علم کسی کو نہیں ہو سکا۔ مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ علم کسی کو نہیں ہو سکا۔ مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ روح ایک ایسا لطف جوہر ہے جوذی روح کی شکل وصورت جیسا ہوتا ہے اور اس کا ہر جز جسم حیوانی کے ہرجز میں سما جاتا ہے۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا راز ہے جس پر کوئی بھی مطلع نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’کہہ دیجئے!روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔‘‘ (بني إسرائیل: 85)
3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے سوالات محض تکلفات ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ انسان کی عملی زندگی ہی سے اس کا کوئی تعلق ہے، اس لیے ایسے سوالات پوچھنے سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔