قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: تقریری

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ} [النساء: 171]

7302. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ لَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ أَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِيمِيِّ الْحَنْظَلِيِّ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِغَيْرِهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي فَقَالَ عُمَرُ مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمٌ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَكَانَ عُمَرُ بَعْدُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔

7302.

سیدنا ابن ابو ملیکہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قریب تھا کہ دو بہترین آدمی ابو بکر وعمر ؓ ہلاک ہو جاتے۔ جس وقت نبی ﷺ کے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب نے بنو مجاشع سے اقرع بن حابس تمیمی حنظلی کو ان کا امیر بنانے کا مشورہ دیا جبکہ دوسرے نے اس کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا: آپ کو مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: میری خواہش آپ کی مخالفت کرنا نہیں پھر نبی ﷺ کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو یہ آیت اتری: ”اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔۔۔۔۔اجر عظیم ہے۔“ ابن ابو ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر ؓ کہتے تھے: سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا اس آیت کے بعد یہ انداز تھا کہ وہ نبی ﷺ سے کوئی بات کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے۔ وہ آپ ﷺ کو نہ سنا سکتے حتیٰ کہ آپ دوبارہ پوچھتے (کیا کہا ہے؟) لیکن ابن زبیر اپنے نانا سیدنا ابو بکر ؓ سے یہ بات بیان نہیں کرتے تھے۔