قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ} [النساء: 171]

7303. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ قَالَتْ عَائِشَةُ قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعْ النَّاسَ مِنْ الْبُكَاءِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعْ النَّاسَ مِنْ الْبُكَاءِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔

7303.

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا: ابو بکرسے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے جواب دیا: ابو بکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (قراءت) نہیں سنا سکیں گے لہذا آپ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ ﷺ نےدوبارہ فرمایا : ”ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے سیدہ حفصہ سے کہا: تم کہو کہ اگر ابو بکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (قراءت) نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیں وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے یہ بات کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ تم سیدنا یوسف ؑ کو پھانسنے والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہیں وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ بعد میں سیدنا حفصہ‬ ؓ ن‬ے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے کہا: میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں پائی۔