تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے تنازع کی کراہت ثابت کی ہے کیونک اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے اختلاف کر کے بار بار ایک ہی بات کو دہراتی رہیں۔ آخر کارحضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وہی بات کہلوائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مداخلت کی ضرورت پڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا کردار حضرت یوسف علیہ السلام کو پھانسنے والی عورتوں سے مختلف نہیں۔ وہ بھی بظاہر عزیز مصر کی بیوی کو حضرت یوسف علیہ السلام سے دلی تعلق پر ملامت کرتی تھیں لیکن وہ خود ان سے تعلق قائم کرنے کے لیے بے قرار تھیں اسی طرح تم بظاہر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گریہ وزاری کا بہانہ پیش کر کے انھیں امامت سے دور رکھنا چاہتی ہو لیکن تمھاری خواہش کچھ اور ہے۔
2۔دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چاہتی تھیں کہ اگر حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر کھڑے ہوئے تو لوگ اسے بدشگونی سے تعبیر کریں گے۔ اس بات کا اظہار بھی انھوں نے کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو مصلے پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔ بہر حال اس حدیث میں باہمی اختلاف اور آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کراہت کو ثابت کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔