قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ} [النساء: 171]

7305. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ النَّصْرِيُّ وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ذَكَرَ لِي ذِكْرًا مِنْ ذَلِكَ فَدَخَلْتُ عَلَى مَالِكٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَذِنَ لَهُمَا قَالَ الْعَبَّاسُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ اسْتَبَّا فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ فَقَالَ اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ قَالَ الرَّهْطُ قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ قَالَا نَعَمْ قَالَ عُمَرُ فَإِنِّي مُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ الْآيَةَ فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ فَقَالُوا نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ قَالَا نَعَمْ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنْ ابْنِ أَخِيكِ وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِكَ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ قَالَ الرَّهْطُ نَعَمْ فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ قَالَا نَعَمْ قَالَ أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔

7305.

سیدنا مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں سیدنا عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اتنے میں ان کے دربان سیدنا یرفا آئے اور کہا: سیدنا عثمان، عبدالرحمن، زبیر اور سعد‬ ؓ ا‬ندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اجازت دی جائے؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں چنانچہ وہ سب لوگ اندر آگئے، سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفا نے آ کر پوچھا: کیا سیدنا عباس اور سیدنا علی ؓ کو اندر آنے کی اجازت ہے؟ سیدنا عمر ؓ نے دونوں کو اندر آنے اجازت دے دی۔۔ سیدنا عباس ؓ نے کہا: امیری المومنین! میرے اور اس ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیں پھر وہ دونوں آپس میں الجھ گئے اور ایک دوسرے سے توتکار کی۔ سیدنا عثمان بن عفان ؓ اور ان کے ساتھیوں نے کہا: امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ایک دوسرے سے راحت پہنچائیں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تھوڑا صبر کرو۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہے! کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا تھا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو ترکہ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اس سے مراد خود اپنی ذات کریمہ لی تھی؟ ان حضرات نے کہا: واقعی آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا، پھر سیدنا عمر ؓ سیدنا عباس اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس مال فے میں رسول کے لیے ایک حصہ خاص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی اور کو نہیں دیا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جو مال فے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اپنے رسول کو دیا۔ اس پر تم نے اونٹ گھوڑے نہیں دوڑائے۔۔۔۔۔۔۔آخر تک“ اس آیت کریمہ کے مطابق یہ مال خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ نے اسے، آپ لوگوں کو نظر انداز کر کے، اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد ہی بنایا بلکہ آپ نے اسے تم لوگوں کو دیا اور سب میں تقسیم کر دیا یہاں تک کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا۔ نبی ﷺ اس میں سے اپنے اہل خانہ کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبیﷺ نے اپنی زندگی بھر یہی معمول بنائے رکھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں اس کا علم ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: ہاں (ہم سب جانتے ہیں) پھر آپ نے سیدنا علی اور عباس ؓ سے کہا: میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگ بھی اسے جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں (ہمیں اس کا علم ہے)۔ پھر آپ نے فرمایا: اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے اس مال کو اپنےقبضے میں لے کر اس میں وہی عمل کیا جو رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا اور تم دونوں س وقت موجود تھے۔ آپ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر یہ بات کہی۔ اور آپ حضرات کا خیال تھا کہ ابو بکر ؓ نے ان اموال میں ایسا ایسا کیا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والئ تھے، پھر اللہ تعالیٰ سیدنا ابو بکر ؓ کو فوت کر لیا تو میں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میں دو سال تک رکھا اور اس میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ کے معمول کے مطابق عمل کرتا رہا۔ پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ دونوں کا مطالبہ ایک تھا اور تمہارا کام بھی ایک ہی تھا، اے عباس! آپ اپنے بھتیجے کی وراثت لینے آئے اور علی ؓ اپنی بیوی کی طرف سے اپنی میراث لینے آئے۔ میں نے تم سے کہا: یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں یہ دے دیتا ہوں اور تم پر اللہ کا عہد اور وعدہ ہے کہ اس میں وہی عمل کرو گے جو رسول اللہ ﷺ نے کیا اور جو ابو بکر ؓ نے کیا اور میں نے کیا جب سے ولی بنا ہوں۔ اگر تمہیں یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملے میں بات نہ کرو۔ اس وقت تم دونوں نے کہا تھا: ٹھیک ہے۔ اس شرط پر جائیداد ہمارے حوالے کردیں۔ تب میں نے اس شرط پر وہ جائیداد تمہارے حوالے کردیں۔ تب میں نے اس شرط پر وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دی۔ اب میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے اسی شرط پر جائیداد ان دونوں کے حوالے کی تھی؟ اس گروہ نے کہا: جی ہاں ۔پھر سیدنا عمر ؓ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے اسی شرط پر جائیداد تمہارے حوالے کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ؓ نے کہا: کیا آپ حضرات مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں! میں اس جائیداد میں اسکے علاوہ کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ اگر آنحضرات اس کا انتطام نہیں کرسکتے تو اسے میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے اس کا بھی انتظام کرلوں گا۔