قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّمَنِّي (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً} [هود: 80]

7305 .   حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو حَدَّثَنَا عَطَاءٌ قَالَ أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ فَخَرَجَ عُمَرُ فَقَالَ الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَقَدَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ يَقُولُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ وَقَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالصَّلَاةِ هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الصَّلَاةَ فَجَاءَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَقَدَ النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ فَخَرَجَ وَهُوَ يَمْسَحُ الْمَاءَ عَنْ شِقِّهِ يَقُولُ إِنَّهُ لَلْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي وَقَالَ عَمْرٌو حَدَّثَنَا عَطَاءٌ لَيْسَ فِيهِ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَّا عَمْرٌو فَقَالَ رَأْسُهُ يَقْطُرُ وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ يَمْسَحُ الْمَاءَ عَنْ شِقِّهِ وَقَالَ عَمْرٌو لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ إِنَّهُ لَلْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

صحیح بخاری:

کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب : لفظ” اگر مگر“ کے استعمال کا جواز

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔

7305.   سیدنا عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک رات ایسا ہوا کہ نبی ﷺ نے نماز عشاء میں دیر کی تو سیدنا عمر ؓ نکلے اور کہا: اللہ کے رسول! نماز پڑھائیں، اب تو عورتیں اور بچے سونے لگے ہیں۔ اس وقت آپ حجرے سے برآمد ہوئے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، فرمانے لگے: ”اگر میری امت پر۔۔۔۔یا فرمایا: لوگوں پر۔۔۔۔۔ مشکل نہ ہوتی تو میں اس وقت انہیں یہ نماز پڑھنے کا حکم دیتا۔“ ایک روایت میں سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے نماز عشاء میں دیر کی تو سیدنا عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! عورتیں اور بچے سوگئے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ باہر تشریف لائے جبکہ آپ اپنی ایک جانب سے پانی صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”اگر میں اپنی امت پر مشکل نہ سمجھتا تو اس نماز کا عمدہ وقت یہی ہے۔“ عمرو بن دینار نے کہا: ہم سے عطاء نے بیان کیا، اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں بہرحال عمرو نے کہا: آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا لیکن ابن جریج نے کہا: آپ اپنی ایک جانب سے پانی صاف کر رہے تھے۔۔ عمرو نے کہا کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا۔“ ابن جریج نے کہا کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو اس نماز کا افضل وقت یہی ہے۔“ ابراہیم بن منذر نے کہا: ہم سے معن نے بیان کیا محمد بن، مسلم سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔