تشریح:
1۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقیقی چچا تھے اور بھتیجا بیٹے کی طرح ہوتا ہے اس لیے اگر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظالم کہا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کیونکہ باپ بیٹے کی تلخ کلامی ہو جاتی ہےالبتہ کسی دوسرے کے لیے ایسا کہنا جائز نہیں۔ ممکن ہے کہ اس لفظ سے اس کے حقیقی معنی مراد ہی نہ ہوں بلکہ اسے لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہو کہ ایک چیز کو اس کے محل کے علاوہ دوسری جگہ رکھ دینا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں یہ کہنا محال ہے کہ وہ حقیقی طور پر ظالم ہوں۔ اس کی تاویل یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطور ڈانٹ ڈپٹ کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے براخیال کر کے اس کا نوٹس نہیں لیا حالانکہ آپ منکر اشیاء کو بہت براخیال کرتے تھے۔
2۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جھگڑے اور اختلاف کو اچھا خیال نہ کیا اسی لیے بیک زبان ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر کے انھیں آرام پہنچائیں۔ اس جھگڑے کی وجہ سے یہ لوگ سخت پریشان ہیں۔ ان حضرات کا بےجا جھگڑا تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے دیگر مباحث پہلے گزر چکے ہیں ہم انھیں دہرانا نہیں چاہتے۔