تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایسی چیز کے متعلق سوال کیاجاتا جس کے بارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یا فرماتے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے، عقل وقیاس سے جواب نہ دیتے تھے۔ جب وحی آتی تو اس کا جواب دیتے۔ پھر وحی عام ہے کہ قرآن کی شکل میں آتی یا بیان کی صورت میں۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر دینی مسائل کا جواب نہ دیتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ،جو کہتے ہیں وہ نازل کی ہوئی وحی ہوتی ہے۔‘‘ (النجم:3، 4 )
2۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا، چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جسے کسی چیز کے متعلق علم ہو اس کے مطابق جواب دے اور جسے علم نہ ہو وہ اللہ اعلم کہہ دے۔ یہ کہہ دینا بھی اس کےعالم ہونے کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تعلیم دی ہے، پھر انہوں نے سورہ ص آیت:86 تلاوت کی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4809) ایسےموقع پر خاموشی اختیا رکرنے کی مثال تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بیان کردی ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 125) اور (لا أدري) کہنے کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے: ’’مجھے معلوم نہیں کہ حدود، گناہ کے مرتکب کے لیے کفارہ ہیں یا نہیں۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 450/2)
3۔واضح رہے کہ علم سے مراد وہ معلومات ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ذریعے سے فراہم ہوں اور جو معلومات ان سے بالا بالا حاصل کی جائیں وہ شریعت کی نظر میں علم نہیں ہے۔
4۔ سوالات کا جواب دینے میں سلف صالحین کی تین قسمیں ہیں: الف۔ صرف قرآن وحدیث اور اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھن اجمعین کی روشنی میں جواب دیتے۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہوتی تو خاموشی اختیار کرتے۔ ب۔ انھوں نے رائے اور قیاس کو استعمال کرتے ہوئے جوابات دیے، پھر فرضی مسائل کے ڈھیر لگا دیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی لوگوں کی تردید کرتے ہیں۔ ج۔ جب ان کے پاس قرآن وحدیث سے کوئی دلیل ہوتی تو اس کی روشنی میں جواب دیتے بصورت دیگر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عقل اورقیاس سے جواب دیتے۔ یہ آخری قابل ستائش اور لائق تعریف ہے۔ (فتح الباري: 357/13)