تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حق ایک ہی ہوتا ہے۔ اسے تلاش کرنے میں اگرغلطی اور خطا ہو جائے تو تلاش حق کا ثواب ضائع نہیں ہوگا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب مجتہد تلاش حق کے وقت جان بوجھ کر نص ِ صریح یا اجماع اُمت کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر خلاف ورزی کو تو گناہ گار بھی ہوگا اور اس کی عدالت بھی جاتی رہے گی۔
2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قاضی کو مجتہد ہونا چاہیے مقلد کی قضا جائز نہیں کیونکہ مقلد تو اپنے امام کے قول کو اختیار کرتا ہے، وہ اس خول سے باہر نہیں نکلتا، جبکہ دلیل معلوم ہو جانے کے بعد اس کے پیروی ضروری ہے، خواہ وہ اس کے امام کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں ایسے مقلدین کی مذمت کی ہے جو حق اور دلیل معلوم ہو جانے کےبعد بھی آبائی تقلید پر جمے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا صریح جہالت اور واضح ناانصافی ہے۔ واللہ أعلم۔