قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ نَهْيِ النَّبِيِّ ﷺعَلَى التَّحْرِيمِ إِلَّا مَا تُعْرَفُ إِبَاحَتُهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَكَذَلِكَ أَمْرُهُ نَحْوَ قَوْلِهِ حِينَ أَحَلُّوا: «أَصِيبُوا مِنَ النِّسَاءِ» وَقَالَ جَابِرٌ: «وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ، وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ» وَقَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ: «نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَازَةِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا»

7367. حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البُرْسَانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ قَالَ أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ خَالِصًا لَيْسَ مَعَهُ عُمْرَةٌ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحِلَّ وَقَالَ أَحِلُّوا وَأَصِيبُوا مِنْ النِّسَاءِ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ فَبَلَغَهُ أَنَّا نَقُولُ لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ إِلَى نِسَائِنَا فَنَأْتِي عَرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَذْيَ قَالَ وَيَقُولُ جَابِرٌ بِيَدِهِ هَكَذَا وَحَرَّكَهَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ فَحِلُّوا فَلَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اسی طرح آپ جس کا م کا حکم کریں ۔ مثلاً جب لوگ حج سے فارغ ہو گئے تو آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کہ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ ۔ جابر ؓ نے کہا کہ صحابہ پر آپ نے اس کا کرنا ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف اسے حلال کیا تھا ۔ ام عطیہؓ نے کا کہ ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ہے لیکن حرام نہیں ہوا ۔ تشریح : حضرت جابر ؓ کے اس اثر کو اسماعیلی نے وصل کا ۔ مطلب امام بخاری  کا یہ ہے کہ اصل میں امر وجوب کے لیے اور نہی تحریم کے لیے موضوع ہے مگر جہاں قرائن یا دوسرے دلائل سے معلوم ہو جائے کہ وجوب یا تحریم مقصود نہیں ہے تو وہاں امر اباحت کے لیے اور نہی کراہت کے لیے ہو سکتی ہے ۔ حدیث ذیل سے باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ عورتوں سے صحبت کرنے کا جو حکم آپ نے دیا تھا وہ وجوب کے لیے نہ تھا ۔ قرآن میں ایسے بھی امر موجود ہیں جیسے فرمایا واذا حللتم فاصطادو ( المائدہ: 2 ) یعنی جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرو حالانکہ شکار کرنا کچھ اور واجب نہیں ہے ۔ اسی طرح فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشرو ا فی الاارض وابتغو من فضل اللہ ۔ ( الجمعہ : 10 )

7367.

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام نے صرف حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ عمرے کی نیت نہ تھی۔ نبی ﷺ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ہمیں آپ نے حکم دیا کہ ہم حج کا احرام کھول دیں اور فرمایا: ”تم حج کا احرام کھول دو اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔“ سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر ؓ نے فرمایا: آپ نے بیویوں سے جماع کرنا ان پر واجب نہیں کیا تھا صرف عورتوں کو ان پر حلال کیا تھا، پھر آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ ہم لوگ کہتے ہیں: جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں تو آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس جائیں اس حالت میں جب ہم عرفہ جائیں گے تو ہماری شرم گاہوں سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ سیدنا جابر ؓ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت دیتے تھے۔ تب رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ سچا اور نیک ہوں۔ اگر میرے پاس قربانی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول دیتا جیسا کہ تم نے کھول دیے ہیں، لہذا تم مکمل طور پر حلال ہو جاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ پھر ہم احرام کھول کر (پوری طرح) حلال ہوگئے، ہم نے آپ کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔