تشریح:
1۔اہل کلام کے نزدیک انسان پر پہلا واجب یہ ہے کہ وہ وجود باری تعالیٰ کے متعلق غور وفکرکرے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ اس سلسلے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو، پھر وہ اس کے متعلق غوروخوض کرے جبکہ ہمارے اسلاف کے نزدیک انسان پر پہلا واجب عقیدہ توحید کو مضبوط کرنا ہےجیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے واضح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اوربلاشبہ یقیناً ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو!) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت(کی عبادت) سے بچو۔‘‘ (النحل: 136) حضرت حارث بن حارث العائذی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مکہ مکرمہ آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اکھٹے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا: یہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا: یہ لوگ ایک صابی کے گرد جمع ہیں۔ جب میں نے قریب جا کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں توحید اورایمان کی دعوت دے رہے تھے۔ (التاریخ الکبیر: 262/13) ایک روایت میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ انھیں شہادتیں کے اقرار اور اس پر ایمان کی دعوت دیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1395) لاالٰه الا اللہ کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کی صراحت بھی ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1458) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کےسوا دوسروں کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ عبادت کے علاوہ دوسرے تمام طریقوں سے دست بردار ہوجائیں۔
2۔واضح رہے کہ ان شہادتین کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک کے بغیر دوسری کا اعتبار نہیں کیا جائےگا۔ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اورہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے دوسروں کوشریک کرتا ہے توایسا شخص بھی ایمان سے خارج ہے، اس لیے ایک بندہ مسلم کے لیے ان دونوں شہادتوں کا اقرار اور ان کے مطابق ایمان انتہائی ضروری ہے۔ (شرح کتاب التوحید للشیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان: 39/1) اللہ تعالیٰ کی معرفت دین اسلام کا ماحاصل ہے اور عقیدہ توحید اس معرفت کی اساس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معرفت کے اصول وضوابط خوب وضاحت سے بیان فرما دیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی اشتباہ یا شک باقی نہیں چھوڑا۔ اس بنا پر عقائد کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہی کافی ہے۔ کسی منطقی کی رائے، فلسفی کی عقل یا کسی تاویل کرنے والے کی تاویل کے ہم محتاج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی توحید بیان کرنا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس فرض کو پوری ذمہ داری سے ادا کرکے اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس پر گواہ بنایا۔ اب اس سے انحراف کرنے والوں کے لیے کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے منطق کی قیل وقال یا فلسفے کی موشگافیوں کا سہارا لیں۔
3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع سے پہلے اپنے ہمسائے ملک یمن میں دعوت توحید اوراشاعت اسلام کے لیے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کہ وہ دونوں وہاں کے رہنے والے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی پہچان کرائیں۔ جب وہ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر دیگر شعائر اسلام کی انھیں تعلیم دیں۔
4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان پر پہلا واجب اپنے رب کی معرفت ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس امر کو بیان کیا ہے اور اس عقیدہ توحید کی دعوت دی ہے، اب اس کی وضاحت کے بعد لوگوں کے خود ساختہ اصول وضوابط کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کو حرز جاں بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ دیگر اہل کلام کے اقوال کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ (شرح کتاب التوحید الغنیمان: 42/1)