تشریح:
1۔اس مقام پر یہ حدیث اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے غفیر نامی گدھے پر سوارتھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دفعہ آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا، پھر فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا اپنے بندوں پر حق ہے کہ وہ خالص اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ آگے چل کر پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آواز دے کرمتوجہ کیا اور فرمایا: ’’کیا تمھیں علم ہے کہ جب اس کے بندے اللہ کا حق ادا کریں تو بندوں کا اللہ کے ذمے کیا حق ہے؟‘‘ عرض کی: اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں تو وہ انھیں عذاب نہ دے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2856)
2۔اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے اس حق کی وضاحت مقصود ہے جو اس کے بندوں پر عائد ہوتا ہے اور وہ ہے شرک سے دور رہتے ہوئے اس کی عبادت کرنا۔ اس عبادت سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری اور اس کے منع کردہ کاموں سے بچنا اس کی عبادت ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی ذاتی غرض اور دنیوی فائدے کے پیش نظر اپنے خالق حقیقی کی مخالفت نہ کرے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی وضاحت کر دی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سے مال برابر بھی انحراف نہ کرے۔
3۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے بندوں کے حقوق بندوں کی بجاآوری کا عوض نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے انھیں اپنے ذمے لیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارے رب نے اپنے آپ پر رحمت کرنا لازم کرلیاہے۔‘‘ (الأنعام: 54) نیز فرمایا: ’’اہل ایمان کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔‘‘ (الروم: 47) حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’میرے بندو! میں نےخود پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام کرتا ہوں، لہذا تم کسی پر ظلم نہ کیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 6572 (2577) عبادت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک نہ کرنا توحید الوہیت ہے۔ مشرکین اس سے انکار کرتے تھے۔ افسوس کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی بندگی بھی کرتے ہیں۔ ان کے نام کی نذرونیازدیتے ہیں بلکہ بعض نام نہاد مسلمان تو قبروں کوسجدہ بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توحید الوہیت کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر گامزن رکھے۔ یہی وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے۔ جب بندے اس کی بجاآوری کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں جہنم سے بری کرکے جنت میں داخل فرمائے گا۔