تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور پوری کائنات پر کلی تصرف کا یہ عالم ہوگا کہ قیامت کے دن کائنات کی ہر چیز اس کے ہاتھ میں بالکل بے بس ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں اورتمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (الزمر :39/67) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ہولناک منظر کی مزید وضاحت منقول ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جبار؟ اور کہاں ہیں متکبرین؟ پھر بائیں ہاتھ میں زمینوں کو لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں۔ جبار کہاں ہیں؟ متکبرین کہاں ہیں؟‘‘ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7051(2788) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس دن سب لوگ کھلے میدان میں ہوں گے اور ان کی کوئی بھی چیز اللہ سے چھپی نہ رہے گی،(کہا جائے گا:) آج حکومت کس کی ہے؟ (پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا:) اللہ اکیلے ہی کی جو بہت دبدبے والا ہے۔‘‘ (المومن: 16/40) قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئے گا، جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، سب قیامت کی ہولناکیوں سے دہشت زدہ ہوں گے۔کسی کو کلام کرنے کی جراءت وفرصت نہ ہوگی۔ ہرطرف سناٹا چھایا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کے بادشاہوں کو مخاطب کرکے پوچھے گا آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر اور متکبر حکمران کہاں ہیں؟ آج کس کی بادشاہی ہے؟ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آئے گا، پھر خود ہی اس کا جواب دے گا کہ آج بادشاہی صرف ایک اللہ کی ہے جو ہرچیز کو دبا کر رکھے ہوئے ہے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کی منظر کشی کررہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری کیفیت کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرجوش بیان کے وقت منبر نچلے حصے سے (لے کر اوپر کے حصے تک) حرکت کر رہا تھا حتی کہ میں نے کہا: کیا وہ (منبر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گرپڑے گا؟ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7052(2788)
3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان اور پیش کی گئی حدیث سے یہ مقصود ہے کہ "الملک" اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اگرچہ اس کا اطلاق مخلوق کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن اس میں کسی بھی پہلو سے تشبیہ کا شائبہ نہیں کہ اس کا انکار یا تاویل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ مالک الملک، اس کی بادشاہت مکمل اور مطلق، نیز اس میں کوئی بھی شریک نہیں اور نہ وہ اس کے لیے کسی کا محتاج ہی ہے جبکہ بندوں کی بادشاہت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے، بندے اسے قائم رکھنے کے لیے دوسروں کے محتا ج ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ کہہ دیں: اے اللہ!اے مالک بادشاہی کے! جسے تو چاہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو ہی جسے چاہے عزت دیتا اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے۔ ہر قسم کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقیناً تو ہی ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ (آل عمران: 28)
4۔حدیث اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ لوگوں میں ایسے بادشاہ اور جابر حکمران موجود ہیں جن کے لیے ان کی رعایا عاجزی کے ساتھ آداب واحترام بجا لاتی ہے۔ بعض اوقات لوگ ایسے آداب بجا لاتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہوتے ہیں۔ یہ سب ملوک وسلاطین اللہ تعالیٰ کے ماتحت اور اس کے دباؤ میں ہیں۔ وہ ان میں جیسے چاہے تصرف کرتا ہے۔ یہ تصرف قیامت کے دن نمایاں حیثیت اختیار کرے گا جبکہ اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے ہاتھ میں لپیٹ کرشانِ بے نیازی سے کہے گا: آج میں بادشاہ ہوں، دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ اس وقت ان بادشاہوں کا راز فاش ہوگا جب ذلت ورسوائی نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہوگا۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 114/1)