کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : ایک امر معلوم کو دوسرے امر واضح سے تشبیہ دینا جس کا حکم اللہ نے بیان کردیا ہے تا کہ پوچھنے والا سمجھ جائے
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Comparing an ambiguous situation to a clear well-defined one)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7382.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ ادائیگی سے پہلے پی فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم ان کی طرف سے حج کرلو، تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اس قرض کو بھی ادا کرو جو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ بلاشبہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
تشریح:
1۔اس حدیث سے محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے منکرین قیاس کے خلاف حجت قائم کی ہے، چنانچہ ابراہیم نظام، داود بن علی ظاہری، امام ابن حزم اور کچھ معتزلہ نے حجیت قیاس سے انکار کیا ہے لیکن اُمت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح شرائط کے ساتھ قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ اُمت کو پیش آنے والے مسائل اس کے بغیر حل نہیں ہوتے، البتہ اس میں توسیع پسندی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ ہمارے فقہاء نے ایسے ایسے فرضی مسائل بیان کیے ہیں جنھیں صحیح ماننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ افسوس کہ ان حضرات نے صحیح قیاس کے لیے جو حدود وشرائط تھیں ان میں سے کسی کا بھی خیال نہیں رکھا، پھر ایسے مسائل لکھ ڈالے کہ اغیار، شریعت اسلامیہ کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ العیاذ باللہ۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قرض کی ادائیگی کو بندوں کے قرض کی ادائیگی پر قیاس کیا جسے اس خاتون نے خود تسلیم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اسے سمجھانا تھا۔ اگر ان شرائط اور مقاصد کو مد نظر رکھ کر قیاس کیا جائے تو اسے مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7043
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7315
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7315
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7315
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
قیاس کے متعلق فقہائے کوفہ اور علمائے ظاہر دونوں افراط وتفریط کا شکار ہیں۔امام داؤد ظاہری اور امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے حجیت قیاس کا سرے سے انکار کردیا ہے جبکہ فقہائے احناف نے اسے بے اعتدالی سے استعمال کیا ہے،اس لیے اہل حق کے لیے ضروری تھا کہ قیاس کے متعلق افراط وتفریط پر پابندی لگائیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ ایک مسلمان کو سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خواہ مخواہ قیاس کی ضرورت پیدا نہ کرے۔اگرضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ واضح اور معلوم ہونا چاہیے،پھر علت حکم بھی واضح اور نمایاں ہواور اس سے مقصود فرضی مسائل کا ڈھیر لگا کر وسائل کو پریشان کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اسے سمجھانے کے لیے اس قسم کا کڑوا گھونٹ بھرنا چاہیے۔اب ہم قیاس کی افراط وتفریط کی ایک ایک مثال سےوضاحت کرتے ہیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مدعا سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔علمائے ظاہر کی تفریط :حدیث میں ہے کہ جب کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس میں جو کچھ ہے اسے بہادیا جائے اور برتن کو دھویا جائے۔امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسائل اخذ کرتے ہوئے کہا ہے:اگر برتن سے کتا کوئی چیز کھا جائے اور اس میں منہ ڈال کر کچھ نہ پیے،یا اپنا منہ ڈالنے کے بجائے اپنا پاؤں یا دم ڈال دے،یا خود کو اس میں گرادے تو اس سے برتن کے اندر والا مشروب بہانا ضروری نہیں اور نہ اسے دھونے کی ضرورت ہی ہے۔وہ حلال اور پاک ہے۔اسی طرح اگربرتن کے علاوہ زمین کے گڑھے میں منہ ڈال دے یا انسان کے ہاتھوں میں یا کسی ایسی چیز میں جسے برتن نہیں کہا جاتا تو اس سے بھی اس چیز کو دھونا ضروری نہیں اور نہ اس پانی کو بہادینا واجب ہی ہے کیونکہ (وُلُوغ) صرف پینے كو کہتے ہیں۔(المحلیٰ لابن حزم 1/109)فقہائے کوفہ کا افراط:علمائے احناف نے قیاس کو جس بے دریغ طریقے سے استعمال کیا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ جب نجاست جسم کے کسی حصے کو لگ جائے اور اسے زبان اسے چاٹ لیا جائے یہاں تک کہ اس کے اثرات ختم ہوجائیں تو وہ حصہ پاک ہوجائےگا۔اسی طرح چھری جب نجات آلود ہوجائے تو اسے اگرزبان سے چاٹ لیا جائے یا اپنے تھوک سے اسے صاف کردیا جائے حتی کہ اگرنجاست آلود کپڑے کو بھی زبان سے چاٹ کر اس کے اثرات ختم کردیے جائیں تو وہ پاک ہوجائے گا۔(فتاویٰ عالمگیری 1/45)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ عنوان اسی قسم کی افراط وتفریط کے سد باب کے لیے قائم کیا ہے۔ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کوواضح ہونا چاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہیں کرنا چاہیے،نیز اس سے مقصود سائل کو سمجھانا اور مطمئن کرنا ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ قیاس اور رائے کے مطلق طور پر منکر نہیں ہیں جیسا کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے تاثر دینے کی کوشش کی ہے بلکہ انھوں نے اس رائے اورقیاس کی مذمت ضرور کی ہے جو فاسد ہو اور شرائط کے مطابق نہ ہو،ہاں اگر کوئی مسئلہ قرآن وحدیث میں نہ ملتا ہو اور وہاں صحیح شرائط کے ساتھ قیاس کو استعمال کیا جائے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ قطعاً اس کے منکر نہیں۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ ادائیگی سے پہلے پی فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم ان کی طرف سے حج کرلو، تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اس قرض کو بھی ادا کرو جو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ بلاشبہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے منکرین قیاس کے خلاف حجت قائم کی ہے، چنانچہ ابراہیم نظام، داود بن علی ظاہری، امام ابن حزم اور کچھ معتزلہ نے حجیت قیاس سے انکار کیا ہے لیکن اُمت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح شرائط کے ساتھ قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ اُمت کو پیش آنے والے مسائل اس کے بغیر حل نہیں ہوتے، البتہ اس میں توسیع پسندی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ ہمارے فقہاء نے ایسے ایسے فرضی مسائل بیان کیے ہیں جنھیں صحیح ماننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ افسوس کہ ان حضرات نے صحیح قیاس کے لیے جو حدود وشرائط تھیں ان میں سے کسی کا بھی خیال نہیں رکھا، پھر ایسے مسائل لکھ ڈالے کہ اغیار، شریعت اسلامیہ کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ العیاذ باللہ۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قرض کی ادائیگی کو بندوں کے قرض کی ادائیگی پر قیاس کیا جسے اس خاتون نے خود تسلیم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اسے سمجھانا تھا۔ اگر ان شرائط اور مقاصد کو مد نظر رکھ کر قیاس کیا جائے تو اسے مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو بشر نے‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ (ادائےگی سے پہلے ہی) وفات پاگئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلو ں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے حج کر لو۔ تمہارا کے خیال ہے‘ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے پورا کرتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس قرض کو بھی پورا کر جو اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس قرض کا پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : A woman came to the Prophet (ﷺ) and said, "My mother vowed to perform the Hajj but she died before performing it. Should I perform the Hajj on her behalf?" He said, "Yes! Perform the Hajj on her behalf. See, if your mother had been in debt, would you have paid her debt?" She said, "Yes." He said, "So you should pay what is for Him as Allah has more right that one should fulfill one's obligations to Him. "