تشریح:
1۔ابن بطال نے کہا ہے کہ اس روایت میں وضع کی نسبت اسم کی طرف اوررفع کی نسبت ذات کی طرف ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم سے مراد ذات ہے وضع اوررفع میں ذات سے استعانت کی جاتی ہے لفظ سے نہیں۔ (فتح الباري: 464/13)
2۔ابن بطال نے اپنے انداز سے اس حدیث سے مناسبت کشید کی ہے جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قطعاً یہ مقصد نہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق بندہ مخلص ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے زندگی کے تمام معاملات اپنے رب کی مرضی کے مطابق بجالاتا ہے، اپنے گھر سے نکلتے وقت، اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت، اپنے کھانے پینے، نیند وبیداری اور لوگوں سے میل جول رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب رہتا ہے۔
3۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کے وقت اور اس سے بیدار ہوتے وقت عبادت کرنے کی رہنمائی کی ہے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے نام کے ذریعے سے اپنا پہلو بستر پر رکھے اور اللہ تعالیٰ کے ناموں کے حوالے سے اس سے سوال کرے۔ درحقیقت، نیند موت ہی کی ایک قسم ہے، بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں فوت ہوجاتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس سے التجا کی جائے۔ اگر موت آجائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے۔ اوراگر اپنی قدرت کاملہ سے بدن میں اسے واپس کردے توشیطان اور دیگر موذی چیزوں سے اس کی حفاظت کرے۔ اس حدیث کے مطابق نیند کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا مشروع ہے تاکہ انسان کی چھوٹی موت، یعنی نیند اللہ تعالیٰ کے نام پر ہو اور اس آیت کی زندہ تصویر بن جائے: ’’کہہ دیجئے!میری نماز،میری قربانی،میر ی زندگی اورمیری موت اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔‘‘ (الأنعام: 162) اس انداز سے انسان خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیتا ہے اور اس کی طرف اپنی عاجزی، بے بسی اور محتاجی کا اظہار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ سے ہر چیز کا سوال کرتا ہے جس سے وہ بے نیاز نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ناموں کے طفیل اسے پکارنا ہے، گویا اس آیت کی تفسیر ہے: ’’سب سے اچھے نام اللہ تعالیٰ ہی کے نام ہیں،لہذا تم اسے انھی ناموں سے پکارا کرو۔‘‘ (الأعراف۔180) اس مناسبت کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔