تشریح:
(1) مسئلہ مذکور کے متعلق پہلا اختلاف وضع وار سال کا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں ہاتھ باندھے جائیں۔ انھیں کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دوسرا اختلاف کیفیت سے متعلق ہے کہ ہاتھ کس طرح باندھے جائیں؟اور تیسرا اختلاف محل وضع کا ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟حدیث بالا میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور کچھ کیفیت کا بھی بیان ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا جائے۔ لیکن کلائی کے کس مقام پر رکھا جائے اس کی وضاحت حضرت وائل بن حجر ؓ کی روایت میں بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں کی پشت پر، جوڑ پر اور کلائی پر رکھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:727) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب نماز شروع کی تو اللہ اکبر کے بعد آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:896(401)) ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:252) محل وضع کے متعلق بھی صراحت ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاة……1/243، حدیث:479) حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی حدیث کے مطابق بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔سینے پر رکھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں کے رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسندأحمد:226/5) زیر ناف ہاتھ باندھنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں۔ سینے پر ہاتھ باندھنا عاجزی کی علامت، نماز میں فعل عبث سے رکاوٹ، دل کی حفاظت اور خشوع کے زیادہ مناسب ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگلا عنوان خشوع کے متعلق قائم کیا ہے۔ چونکہ دل نیت کا محل ہے، عام طور پر انسان جس چیز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اس پر دونوں ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ (فتح الباري:291/2) ان روایات کے پیش نظر ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر،جوڑ اور کلائی پر آجائے۔ پھر دونوں کو سینے پر رکھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔ گویا ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں:٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھا جائے۔٭دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھا جائے۔ کلائی کو کلائی پر رکھ کر کہنی کو پکڑنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(2) ہاتھ باندھنے کے متعلق مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف ہاتھ رکھیں۔ یہ تفریق غیر شرعی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مرد اور عورت کے طریقۂ نماز میں کوئی فرق نہیں بتایا۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہاتھ زیر ناف بندھے جائیں تو بایاں ہاتھ اوپر اور دایاں نیچے ہوتا ہے جبکہ ہمیں اس کے برعکس حکم دیا گیا ہے، یعنی دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے ہو۔