تشریح:
1۔یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کے متعلق بکواس کی تھی کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ بندھے ہوئے تو ان کے اپنے ہاتھ ہیں اور اس کی بکواس کی وجہ سے ان پر پھٹکار پڑ گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ (المآئدة: 64) مذکورہ حدیث اس آیت کی تفسیر ہے۔ اس حدیث اور ذکر کی گئی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت ید کا اثبات ہے جس کی تاویل کرنا درست نہیں، چنانچہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں (يَدُ اللَّهِ) کے بجائے (يَمِينُ الله) کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7419)
2۔ان الفاظ پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس لفظ سے ان لوگوں کا خوب تعاقب ہو سکتا ہے جو صفت ید کی تفسیر"نعمت" سے کرتے ہیں اور وہ لوگ تو بہت دور کی کوڑی لائے ہیں جو اس کی تفسیر "خزائن" سے کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ خزائن میں تصرف ہاتھ کرتا ہے، اس لیے صفت ید کا اطلاق خزائن پر کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 484/13)
3۔لیکن ان کی یہ دلیل درست نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اشعری ہونے کے باوجود صفت ید کے متعلق تاویل کرنے والوں کی تردید کی ہے جیسا کہ مذکورہ عبادت سے معلوم ہوتا ہے۔ (عمدة القاري: 608/16) اللہ کے ہاتھ بھر پور ہیں، اس سے حقیقی ہاتھ مراد ہیں۔ اس کی تفسیر قدرت سے کرنا صحیح نہیں جیسا کہ قدریہ کا موقف ہے کیونکہ اس حدیث میں دوسرے ہاتھ کا بھی ذکر ہے کہ اس میں ترازو ہے۔ ہاتھ کو قدرت کے معنی تسلیم کرنے کی صورت میں دو قدرتوں کا اثبات لازم آتا ہے، لہذا "ید" کے معنی حقیقی ہاتھ ہی ہیں۔ اسی طرح اس کے معنی نعمت کرنا بھی صحیح نہیں۔ چونکہ تمام نعمتیں مخلوق ہیں اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ایک مخلوق نے اسی طرح کی مخلوق کو پیدا کیا ہے اور جس نے اس کے معنی خزائن کیے ہیں وہ تو بہت دور جا بھٹکا ہے۔