تشریح:
1۔مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں اور ہاتھوں کی انگلیاں ہیں جن کی صراحت ان احادیث میں بیان ہوئی ہے لیکن علامہ خطابی فرماتے ہیں، انگلیوں کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور نہ کسی قطعی الثبوت حدیث ہی میں ان کی وضاحت ہے، علاوہ ازیں ہاتھ سے مراد بھی عضو نہیں کہ اس کے ثابت ہونے سے انگلیوں کا ثبوت فراہم ہو۔ مذکورہ احادیث میں انگلیوں کا ذکر یہودی عالم کی کارستانی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بات پر ہنسنا یہ انکار کے طور پر تھا۔راوی کا یہ اپنا گمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہنسےتھے۔ اس گمان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ (اعلام الحدیث: 1903/3)
2۔ہمیں علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ صفات باری تعالیٰ کے متعلق تاویل کرنے والوں کی ہمنوائی میں اس حد تک تجاوز کرجائیں گے۔ ہمارے نزدیک انگلیوں کا ذکر بایں طور پر قرآن مجید میں ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو چیز تمھیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کر دے اس سے رُک جاؤ۔‘‘ (الحشر: 7) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں، ہتھیلی، دائیں ہاتھ اور مٹھی وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں بلکہ قرآن مجید ہے: (بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ) ’’بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ (المآئدة: 64) اس کے علاوہ دیگر آیات بھی پیش کی جا سکتی ہیں، پھر مذکورہ قطعی الثبوت احادیث میں انگلیوں کا ذکر ہے۔ جب صحیح احادیث میں کسی بات کا ذکر ہوتو اس کا قبول کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق اعمال سے ہو یا عقائد سے لیکن اہل بدعت کا کہنا ہے کہ صفات باری تعالیٰ کا ذکر قرآن میں یا متواتر احادیث میں ہونا ضروری ہے۔ ان کا یہ قاعدہ خود ساختہ اور محدثین کے اصولوں کے خلاف ہے۔
3۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان صفات کا ذکر کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب وہی تھے جو عربی زبان سمجھتے اور اس کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ کسی ضعیف حدیث سے یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔کسی ضعیف حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل نہ کرنے کی تلقین کی ہو۔ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ باور کہا جا سکتا ہے کہ وہ بندوں سے ایسا خطاب کریں جس کا ظاہری مفہوم کفرہو؟ جیسا کہ تاویل کرنے والوں کا کہنا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ ہم تسلیم ورضا پر عمل کرتے ہوئے ان نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو حقیقی ہاتھ ہیں جو اس کے شایانِ شان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کی انگلیوں پر قیامت کے دن زمین وآسمان اور دیگر مخلوقات کو رکھ کر انھیں جھٹکا دے کر اپنی بادشاہت کا اعلان کرے گا۔
4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک طویل اور غلط بات بیان کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تکذیب کرنے کے بجائے اس پر ہنس دیں۔ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم کی بات سن کر ہنس دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اسے تسلیم کرنے کی علامت ہے، چنانچہ امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا نبی اس بات سے بلند وبالا ہے کہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی صفت بیان کی جائے جو اس کے شایان ِ شان نہ ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تردید کرنے کی بجائے وہاں ہنس دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔ (کتاب التوحید ص 76) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم سے یہ بیان سن کر ہنسنا انکار کے طور پر نہیں بلکہ اس بیان کی تصدیق تھا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ جلیل القدر صحابی کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا اپنا گمان ہے، بہت دلیری اور جسارت ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔ قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ ان باتوں سے پاک اوربالاتر ہے جو یہ لوگ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ (الزمر :67) گویا مشرکین کے تمام معبودان ِ باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا ذکر دیگر احادیث میں بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اولاد آدم کے رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا کہ ایک ہی دل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: (اللَّٰهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ) ’’اے دلوں کے پھیرنے والے !ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔‘‘ (مسند أحمد: 168/1)
5۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:قرآن مجید، احادیث نبویہ اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال میں لفظ "ید" سو مرتبہ سے زیادہ ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، ان کی صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حقیقی ہاتھ ہےمثلاً: پکڑنا، لپیٹنا، پھیلانا، سکیڑنا، مصافحہ کرنا، خمیر گوندھنا، لکھنا اس کا دایاں بایاں ہونا۔ ان کا خیروبرکت سے بھر پور ہونا اور جنت عدن میں درخت لگانا وغیرہ۔ ان تمام اعمال صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ کے حقیقی دو ہاتھ ہیں جن کی اور کوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور یہ ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں سے قطعاً مشابہت نہیں رکھتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان انھیں تسلیم کرنا اور ان پر یقین کرنا ضروری ہے۔ (مختصر الصواعق ص 348)