تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب میں نہیں جانتا کہ وہ پہلے صور پر بے ہوش ہی نہیں ہوئے یا دوسرے صور پر مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے۔ (کیونکہ وہ دنیا میں ایک دفعہ بے ہوش ہو چکے تھے)‘‘ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2411) قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تین دفعہ صورمیں پھونکا جائے گا۔ ©پہلی مرتبہ صور میں پھونکے جانے پر گھبراہٹ واقع ہوگی۔ ©دوسری مرتبہ لوگ بے ہوش ہو جائیں گے۔ اور مر جائیں گے۔ ©تیسری مرتبہ صورمیں پھونکے جانے پر سب انسان زندہ ہو کر اپنے پروردگار کے حضور پیش ہوں گے۔ (الزمر:39۔68 والکهف:18۔99) بعض نے پہلی اور دوسری مرتبہ کو ایک ہی شمارکیا ہے۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے عرش کے بارے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محل استواء ہے۔ ©وہ تمام مخلوقات کے اوپرہے۔ ©اسے فرشتوں نے اٹھارکھا ہے۔ © قیامت کے دن خصوصی طور پر آٹھ فرشتے اسے اُٹھائیں گے۔ ©اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں۔ ©زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے وہ پانی پر موجود تھا۔ ©اس کے پائے ہیں یعنی وہ کروی (گول) شکل کا نہیں ہے۔ ©اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم کریم اور مجید کہا ہے۔ ©اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کی ہے کہ عرش کا مالک ہے۔ ©وہ انتہائی وزنی ہے۔ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6913(2726) ©فردوس اعلیٰ کی چھت عرش الٰہی کی ہے۔
3۔عرش کے حوالے سے دو باتوں کا ذکر انتہائی ضروری ہے۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق لوگوں کے مختلف نظریات ہیں۔ مثلاً: (ا)اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے اندر تھےاسی لیے فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ظہور کیا۔ (ج) اللہ تعالیٰ ہر نوع انسان کے صورت میں موجود ہے۔ (و) اللہ تعالیٰ ہر نوع کی مخلوق میں موجود ہے۔ یہ مختلف نظریات لوگوں کی تصانیف میں موجود ہیں اور اس قدر مشہور ہیں کہ ان کے حوالہ جات کی ضرورت نہیں لیکن یہ جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف اس طورپر کر دیا ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ آسمانوں کے اوپرعرش پر مستوی ہے اور جملہ کائنات سےالگ کسی میں حلول نہیں ہے البتہ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے تمام کائنات کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ کتاب وسنت کے نصوص کا خلاصہ یہی ہے۔
4۔لوگوں میں مشہور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات عرش پر گئے تو جوتے اتارنے لگے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ تم جوتے سمیت آجاؤ۔ یہ حکایت گپ ہے۔ اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں بلکہ قرآنی آیات اس کی تکذیب کرتی ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’آپ ان سے کہیں کہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہوتے جیسا کہ مشرک کہتے ہیں تو وہ اللہ عرش تک پہنچنے کے لیے ضرور کوئی راہ نکالتے ۔‘‘ (بني إسرائیل:17۔42) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور وہاں کوئی نہیں پہنچ سکتا نیز وہ اپنی مخلوق سے الگ ہے چہ جائیکہ وہ ہر چیز کا جز ہو یا ہر چیز میں سرایت کیے ہوئے ہو جیسا کہ بعض گمراہ فرقوں کا عقیدہ ہے۔ اس سے بھی مذکورہ حکایت کے جھوٹ ہونے کا پتا چلتا ہے چنانچہ امام نجم الدین اپنے رسالہ معراج میں لکھتے ہیں سوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں سمیت عرش پر چڑھنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خود ساختہ قصہ بیان کرنے والے کو مارے دہ کس قدر بے حیا اور بے ادب ہے۔ (توحید خالص از شیخ بدیع الدین، ص:35)