قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ المَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ} [المعارج: 4]، )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {إِلَيْهِ يَصْعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ} [فاطر: 10] وَقَالَ أَبُو جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لِأَخِيهِ: اعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ، الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: «العَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُ الكَلِمَ الطَّيِّبَ» يُقَالُ: {ذِي المَعَارِجِ} [المعارج: 3]: «المَلاَئِكَةُ تَعْرُجُ إِلَى اللَّهِ»

7432. حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ أَوْ أَبِي نُعْمٍ شَكَّ قَبِيصَةُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بُعِثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةٍ و حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ فَتَغَيَّظَتْ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ فَقَالُوا يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا قَالَ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اتَّقِ اللَّهَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) فرمان «إليه يصعد الكلم الطيب‏» اس کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ابوذر ؓکو جب نبی کریم ﷺ کے بعثت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے اس شخص کی خبر لا کر دو جو کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اور مجاہد نے کہا نیک عمل پاکیزہ کلمے کو اٹھا لیتا ہے۔ (اللہ تک پہنچا دیتا ہے) «ذي المعارج» سے مراد فرشتے ہیں جو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ تشریح اس باب میں امام بخاری  نےاللہ جل جلالہ کےعلو اورفوقیت کےاثبات کےدلائل بیان کیے ہیں۔اہل حدیث کااس پر اتقاق ہےکہ اللہ تعالی جہت فوق میں ہےاور اللہ کو اوپر سمجھنا یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔جاہل سےجاہل سے شخص جب مصیبت کے وقت فریاد کرتاہے تومنہ اوپر اٹھا کرفریاد کرتاہےمگر جہمیہ اورانکے اتباع نےبرخلاف شریعت وبرخلاف فطرت انسانی فوقیت رحمانی کاانکار کیا ہے۔چنانچہ منقول ہےکہ جہم نماز میں بھی بجائے سبحان ربی الاعلیٰ کےسبحان ربی الاسفل کہاکرتا لعنتہ اللہ علیہ۔

7432.

سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کو کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے وہ چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک دوسری سند سے سیدنا ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ جب یمن میں تھے تو انہوں نے نبی ﷺ کو کچھ سونا بھیجا جو مٹی سے جدا نہ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری کلابی اور بنو نبھان کے زید الخیل طائی کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آیا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ رؤسائے نجد کو تو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں۔“ اس دوران میں ایک آدمی آیا جس کی دونوں آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں پیشانی ابھری ہوئی، ڈاڑھی گھنی، دونوں رخسار پھولے ہوئے اور سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا: یا محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب میں نے ہی اس کی نافرمانی کی تو اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اس نے تو مجھے اہل زمین کے لیے امین بنا کر بھیجا ہے لیکن تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟“ پھر حاضرین میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔۔۔ میرا خیال ہے وہ سیدنا خالد بن ولید ؓ تھے ۔۔۔۔۔۔ تو نبی ﷺ نے انہیں منع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو نبی ﷺ نےفرمایا: ”یقیناً اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے جبکہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑیں گے۔ اگر میں نے ان کا دور پایا تو ضرور انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا۔“