تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز تہجد کے لیے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین و آسمان کی تخلیق اور ان میں غور و فکر کرنے سے متعلق آیات تلاوت فرمائیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انھی آیات سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے جبکہ مادہ پرست حضرات کا خیال ہے کہ مادے کے اجزا آپس میں ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز کی وجود میں آتی گئی ان کا کوئی خالق نہیں ہائیڈروجن کے ذرات ملنے سے سورج بن گیا اور وہ خود بخود گھومنے لگا پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی دیر تک یہ حصہ پڑا رہنے سے جب ٹھنڈا ہوا تو استعمال کے قابل زمین بن گئی جب زمین نے گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اس طرح محض اتفاق سے کائنات کی ایک ایک چیز بن گئی پھر اتفاق سے یہ کائنات تباہ ہو جائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اس موقف سے اتفاق نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق کا ذکر ہے اور اس فعل کا نتیجہ آسمانوں اور زمین کا پیدا ہونا ہے جو مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے اور خلق اس کا فعل ہے جس سے وہ ازل سے متصف ہے اور اس فعل کا تعلق آسمانوں اور زمین سے حادث ہے۔
2۔ان آیات میں ہے کہ عقل مند لوگ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے ہیں اور پکار کر عرض کرتے ہیں: (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا) ’’اے ہمارےرب!تونے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔‘‘ (آل عمران 191) بہر حال کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اگر ہم نے وحی سے بے نیاز ہو کر ان کے متعلق سوچ بچار کی تو جگہ جگہ ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ وحی الٰہی سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کا کوئی خالق ہے جو اسےمستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر چلا رہا ہے اور یہ بے مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کے لیے اسے وجود میں لایا گیا اور وہ ہے انسان کی خدمت اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہے اور عبادت کا مفہوم اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کارد توحید کی اہمیت قانون سزاوجزا جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آ جاتی ہے۔