صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
8. باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ انعام میں ” اور وہی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ۔ “
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
8. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِالحَقِّ}
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
8. Chapter: “And it is He Who has created the heavens and the earth in truth…”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ انعام میں ” اور وہی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ۔ “
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And it is He Who has created the heavens and the earth in truth…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7452.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ رات کے وقت اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اےاللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ حمدوثنا تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان سب کو قائم کرنے والا ہے۔ تعریف تجھے ہی سزاوار ہے۔ تو آسمانوں وزمین کا نور ہے۔ تیرا قول، برحق، تیرا وعدہ مبنی بر حقیقت ہے تیری ملاقات برحق، جنت سچ اور جہنم برحق نیز روز قیامت بھی حق ہے، اے اللہ! میں نے تیرے حضور اپنا سر جھکا دیا۔ میں تجھی پر ایمان لایا۔ میں نے تجھی پر بھروسا کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں تیری ہی مدد سے باطل کے خلاف برسرپیکار ہوں اور تجھی سے انصاف کا طلب گار ہوں۔ میرے ان تمام گناہوں کو معاف کردے جو میں پہلے کرچکا ہوں اور جو بعد میں مجھ سے صادر ہوں۔ وہ گناہ بھی معاف کردے جو میں نے پوشیدہ طور پر کیے ہیں اور جو میں نے اعلانیہ کیے ہیں، تو ہی میرا معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں۔۔ ثابت بن محمد کہتے ہیں کہ سفیان ثوری نے ہم سے یہ الفاظ بیان کیے تھے ”تو حق ہے اور تیرا کلام سچ ہے۔“
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس امر کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت کریمہ میں "حق" سے مراد کلمہ (كُنْ) ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے، کیونکہ جو چیز کلمہ (كُنْ) سے پیدا ہوگی اور مخلوق اور کلمہ (كُنْ) غیر مخلوق ہے۔ جس کلمے سے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ کسی صورت میں مخلوق کے مماثل نہیں ہو سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے قول اور اس کی مخلوق کے درمیان فرق کرنا انتہائی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی صفت ہے اور جو چیز اس کے باعث معرض وجود میں آئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ 2۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استشہاد (قولُك الحقَ) ہے۔ آپ نے مسئلہ کلام اللہ میں فرق جہمیہ اور اشاعرہ کا رد کیا ہے۔ کلامُ اللہ کے متعلق جہمیہ کا نظریہ یہ ہے کہ کلام، اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سے ہوا میں پیدا کیا ہے یا جس جگہ سے کلام سنائی دیتا ہے وہاں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اضافت خلق ہے جیساکہ ناقۃاللہ یا اضافت تشریف ہے جیسا کہ بیت اللہ۔ اس کے متعلق اشاعرہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے لیکن اس کی مشیت سے متعلق نہیں۔ سنے جانے والے حروف والفاظ اور آوازیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں جو اس نے اپنی ذاتی صفت کلام کی تعبیر کے لیے پیدا فرمائے ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے موقف کا جائزہ ہم آئندہ پیش کریں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کو بلاتحریف وتعطیل اور بلاتکییف وتمثیل ثابت کیا جائے اور اسے حقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ اس کی ذات کے لائق ہے۔ اور اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے اور وہ حروف اورسنی جانے والی آواز کےساتھ کلام فرماتا ہے۔ اس موقف پر سلف صالحین کا اتفاق ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کچھ زائد الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی حدیث قبیصہ نے جب یہ حدیث سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کی ہے تو اس (قولُك الحقَ) سے پہلے (أَنْتَ الْحَقُّ) کے الفاظ ساقط ہوگئے۔ جبکہ ثابت بن محمد نے حضرت سفیان سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے۔یہ الفاظ مکمل سیاق کے ساتھ آگے بیان ہوں گے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7442)
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ رات کے وقت اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اےاللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ حمدوثنا تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان سب کو قائم کرنے والا ہے۔ تعریف تجھے ہی سزاوار ہے۔ تو آسمانوں وزمین کا نور ہے۔ تیرا قول، برحق، تیرا وعدہ مبنی بر حقیقت ہے تیری ملاقات برحق، جنت سچ اور جہنم برحق نیز روز قیامت بھی حق ہے، اے اللہ! میں نے تیرے حضور اپنا سر جھکا دیا۔ میں تجھی پر ایمان لایا۔ میں نے تجھی پر بھروسا کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں تیری ہی مدد سے باطل کے خلاف برسرپیکار ہوں اور تجھی سے انصاف کا طلب گار ہوں۔ میرے ان تمام گناہوں کو معاف کردے جو میں پہلے کرچکا ہوں اور جو بعد میں مجھ سے صادر ہوں۔ وہ گناہ بھی معاف کردے جو میں نے پوشیدہ طور پر کیے ہیں اور جو میں نے اعلانیہ کیے ہیں، تو ہی میرا معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں۔۔ ثابت بن محمد کہتے ہیں کہ سفیان ثوری نے ہم سے یہ الفاظ بیان کیے تھے ”تو حق ہے اور تیرا کلام سچ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس امر کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت کریمہ میں "حق" سے مراد کلمہ (كُنْ) ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے، کیونکہ جو چیز کلمہ (كُنْ) سے پیدا ہوگی اور مخلوق اور کلمہ (كُنْ) غیر مخلوق ہے۔ جس کلمے سے مخلوق کو پیدا کیا ہے وہ کسی صورت میں مخلوق کے مماثل نہیں ہو سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے قول اور اس کی مخلوق کے درمیان فرق کرنا انتہائی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی صفت ہے اور جو چیز اس کے باعث معرض وجود میں آئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ 2۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استشہاد (قولُك الحقَ) ہے۔ آپ نے مسئلہ کلام اللہ میں فرق جہمیہ اور اشاعرہ کا رد کیا ہے۔ کلامُ اللہ کے متعلق جہمیہ کا نظریہ یہ ہے کہ کلام، اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سے ہوا میں پیدا کیا ہے یا جس جگہ سے کلام سنائی دیتا ہے وہاں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اضافت خلق ہے جیساکہ ناقۃاللہ یا اضافت تشریف ہے جیسا کہ بیت اللہ۔ اس کے متعلق اشاعرہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے لیکن اس کی مشیت سے متعلق نہیں۔ سنے جانے والے حروف والفاظ اور آوازیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں جو اس نے اپنی ذاتی صفت کلام کی تعبیر کے لیے پیدا فرمائے ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے موقف کا جائزہ ہم آئندہ پیش کریں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام کو بلاتحریف وتعطیل اور بلاتکییف وتمثیل ثابت کیا جائے اور اسے حقیقت تسلیم کیا جائے جیسا کہ اس کی ذات کے لائق ہے۔ اور اس کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے اور وہ حروف اورسنی جانے والی آواز کےساتھ کلام فرماتا ہے۔ اس موقف پر سلف صالحین کا اتفاق ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کچھ زائد الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی حدیث قبیصہ نے جب یہ حدیث سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کی ہے تو اس (قولُك الحقَ) سے پہلے (أَنْتَ الْحَقُّ) کے الفاظ ساقط ہوگئے۔ جبکہ ثابت بن محمد نے حضرت سفیان سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے۔یہ الفاظ مکمل سیاق کے ساتھ آگے بیان ہوں گے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7442)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے ابن جریج نے‘ ان سے سلیمان احول نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رات میں یہ دعا کرتے تھے۔ ”اے اللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے تو آسمان وزمین کا مالک ہے ۔ حمد تیرے لیے ہی ہے تو آسمان وزمین کا قائم کرنے والا ہے اور ان سب کا جو اس میں ہیں۔ تیری ہی لیے حمد ہے تو آسمان وزمین کا نور ہے۔ تیرا قول حق ہے اور تیرا وعدہ سچ ہے اورتیری ملاقات سچ اور جنت سچ اور دوزخ سچ ہے اور قیامت سچ ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے ہی سامنے سر جھکا دیا‘ میں تجھ ہی پر ایمان لایا‘ میں نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا۔ میں نے تیری ہی مدد کے ساتھ مقابلہ کے اور میں تجھی سے انصاف کا طلب کار ہوں۔ پس تو میری مغفرت کر‘ ان تمام گناہوں میں جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں مجھ سے صادر ہوں جو میں نے چھپا رکھے ہیں اور جن کا میں نے اظہار کیا ہے‘ تو ہی میرا معبود ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔“ اور ہم سے ثابت بن محمد نے بیان کیا اور کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے پھر یہی حدیث بیان کی اور اس میں یوں ہے کہ تو حق ہے اور تیرا کلام حق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ پاک پر لفظ حق کا اطلاق درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) used to invoke Allah at night, saying, "O Allah: All the Praises are for You: You are the Lord of the Heavens and the Earth. All the Praises are for You; You are the Maintainer of the Heaven and the Earth and whatever is in them. All the Praises are for You; You are the Light of the Heavens and the Earth. Your Word is the Truth, and Your Promise is the Truth, and the Meeting with You is the Truth, and Paradise is the Truth, and the (Hell) Fire is the Truth, and the Hour is the Truth. O Allah! I surrender myself to You, and I believe in You and I depend upon You, and I repent to You and with You (Your evidences) I stand against my opponents, and to you I leave the judgment (for those who refuse my message). O Allah! Forgive me my sins that I did in the past or will do in the future, and also the sins I did in secret or in public. You are my only God (Whom I worship) and there is no other God for me (i.e. I worship none but You)." Narrated Sufyan: (regarding the above narration) that the Prophet (ﷺ) added, "You are the Truth, and Your Word is the Truth."