صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
9. باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اور اللہ بہت سننے والا ‘ بہت دیکھنے والا ہے ۔ “
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
9. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا} [النساء: 134]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
9. Chapter: “And Allah is Ever All-Hearer, All-Seer.”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اور اللہ بہت سننے والا ‘ بہت دیکھنے والا ہے ۔ “
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And Allah is Ever All-Hearer, All-Seer.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اعمش نے تمیم سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے عائشہؓ نے کہ انہوں نے کہا ساری حمد اسی اللہ کے لیے سزا وار ہے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے پھر خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ بیان کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑا کرتی تھی۔ “
7456.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: سیدنا جبریل نے مجھے آواز دے کر کہا: ”اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے اور جو کچھ انہوں نے آپ کو جواب دیا ہے اسے بھی سن لیا ہے۔“
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کی ہے: اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا احد کے دن سے زیادہ گراں اور تکلیف دہ دن بھی کبھی آپ پر آیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ۔ ’’ہاں تمھاری قوم سے مجھے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت اور شدید تکلیف دہ تھی جو مجھے عقبہ کے دن پہنچی۔ جب میں نےاپنے آپ کو عبد یالیل بن عبد کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا مگر اس نے میری بات قبول نہ کی اس غم والم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا۔ مجھے قرن ثعالب پہنچ کر کچھ افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے انھوں نے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کلام اور ان کا جواب سن لیا ہے۔ اب اس نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے متعلق اسے جو حکم دیں اس کی تعمیل ہو گی۔ اس کے بعد پہاڑوں کےفرشتے نے آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! بات یہی ہے۔ اب آپ جو چاہیں میں کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائے گی۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق: حدیث:3231) 2۔ اس حدیث میں واضح طور پر اس اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور انھیں دیکھتا ہے۔ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں سمع اور بصر اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات ہیں جس کے متعلق ہم ابھی بیان کر آئے ہیں۔ جو شخص ان صفات کا انکار کرتا ہے ا سے ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور دلائل و براہین سے اسے قائل کیا جائے اگر وہ اپنے انکار پر جما رہے اور حق کی وضاحت کے باوجود اسے قبول نہ کرے تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز کا انکار کیا ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کے اجماع سے ثابت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 199/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کرمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کی دو ذاتی صفات سمع اور بصر کا ثبوت ملتا ہے۔ جب کوئی سنائی اور دیکھائی دینے والی چیز وجود میں آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذاتی قدیم صفات کا تعلق ان سے قائم ہو جاتا ہے جبکہ معتزلہ ان صفات کو حادث کہتے ہیں قرآنی آیات اور احادیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بہر حال اس سلسلے میں اسلاف کا موقف ہی صحیح اوردرست ہے۔ واللہ المستعان۔ ( فتح الباري:459/13)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اللہ تعالیٰ کی دو صفات "سمع"اور بصر"کو ثابت کیا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تمام صفات بھی کاملہ ہیں۔ان میں کسی قسم کا کوئی نقص یا عیب نہیں ہے۔ ان صفات کاملہ میں سے ایک صفت سمع اور دوسری بصر ہے اس بنا پر اس کے صفاتی نام سمیع اور بصیر قرآنی آیات میں آئےہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غیر اللہ کے معبود ہونے کا ابطال اس دلیل سے کیا کہ وہ سمع اور بصر سے محروم ہیں چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے فرمایا:"اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جونہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ ہی پہنچا سکتی ہے۔"(مریم:19۔42)اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ذات کا سمع اور بصرسے محروم ہونا اس کے عجز اور نقص پر دلالت کرتا ہے۔ اگر مخلوق میں کچھ صفات کمال ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اس میں مخلوق کی ذاتی کوشش کوکوئی دخل نہیں۔بہر حال سمع اور بصر اللہ تعالیٰ کے لیے اعلیٰ درجے کی صفات ہیں جو مبنی بر حقیقت اور کمال و مدح پر مشتمل ہیں۔ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صفات باری کے متعلق دو غالی فرقوں کی تردید کی ہے معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمع کے بغیر سمع اور بصر کے بغیر بصیر ہے کیونکہ سمع کان کی جھلی سے آواز کی لہروں کے ٹکراجانے کا نام ہے اور بصر آنکھ کی شعاع کا بالمقابل چیز پر پڑنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسی چیزوں کا ثابت کرنا اس کی شان کے خلاف ہے۔کچھ لوگوں نے ان صفات کی تاویل کی ہے کہ وہ جاننے والا ہے یعنی سننے اور دیکھنے سے مراد اشیاء کے بارے میں معلومات رکھتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں گروہوں کی تردید فرمائی ہے معتزلہ کی تردید اس طرح ہے کہ کان کی جھلی سے آواز کے ٹکرانے سے صفت سمع کا پیدا ہونا اور آنکھ کی شعاع کا سامنے کی چیز پر پڑنے سے صفت بصر کا وجود میں آنا یہ مخلوق کے لیے ہے کہ وہ ان صفات کے لیے اسباب اور ذرائع کی محتاج ہے جبکہ اللہ تعالیٰ آواز کے ٹکرانے اور شعاعوں کے نکلنے سے پاک ہے۔ وہ ان کے بغیر سنتا اور دیکھتا ہے۔ اسی طرح دوسرے گروہ کے مطابق لازم آتا ہے کہ نابینا اور بہرہ رب العالمین کے مساوی ہو کیونکہ نابینا جانتا ہے کہ آسمان نیلا ہے، حالانکہ وہ دیکھتا نہیں ہے اور بہرہ جانتا ہے کہ کائنات میں آوازیں ہیں حالانکہ وہ انھیں سنتا نہیں اس بنا پر یہ عقیدہ ظاہر البطلان ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ سمع اور بصیر کے عالم ہونے کے علاوہ ایک زائد معنی کو ثابت کیا جائے اور وہ سمع اور بصر ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سمع وہ ہوتا ہے جو کان کے ذریعے سے مسموعات کو سنے اور بصیر وہ ہوتا ہے جو آنکھ کے ذریعے سے کسی مرئی چیز کو دیکھے یہ دونوں صفات اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا)پڑھا اور اپنے انگوٹھے کو کان پر اور ساتھ والی انگلی کو اپنی آنکھ پر رکھا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتےہوئے دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنی انگلیاں کان اور آنکھ پر کھی تھیں۔(سنن ابی داودالسنۃ حدیث4728)اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے نیز اللہ تعالیٰ کی آنکھ اور کان ہیں ان صفات کے معنی"جاننے والا" نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ثابت کرنے کے لیے دل کی طرف اشارہ کرتے جو علم کا محل ہے لیکن اپ نے ایسا نہیں کیا ہے۔(فتح الباری:13/456)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ روایت کو امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متصل سند سے ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کے کانوں نے ہر قسم کی آوازوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ایک جھگڑنے والی (حضرت خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا )آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معاملے میں جھگڑنے لگی ۔میں گھر کے ایک کونے میں موجود تھی لیکن مجھے اس کی بات سنائی نہ دیتی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کو سن کر یہ آیت نازل فرمائی ۔(مسند احمد6/46)اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت "سمع"ثابت ہے اسی طرح ایک حدیث میں صفت بصر کی بھی صراحت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کے حجاب نور ہیں اگر وہ انھیں دور کردے تو اس کے چہرے کی کرنیں اس کی حد بصر تک مخلوق کی ہر چیز کو جلا کر راکھ بنا دیں۔"(صحیح مسلم الایمان حدیث:445(179)ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صفات باری تعالیٰ کے سلسلے میں نصوص کے ظاہری معنی پر ایمان لائے۔انھوں نے ان کی کوئی تاویل نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ بھی یہی ہے کہ انھیں مبنی بر حقیقت تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا موقف غلط ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول انھیں ضرور متنبہ کرتے اور انھیں صحیح راستہ اختیار کرنے کے متعلق کہا جاتا۔لیکن کسی صحیح یا ضعیف حدیث میں ان کے متعلق کوئی تاویل منقول نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صفات کے متعلق تاویل کا سہارا لینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج نہیں اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین یا تابعین عظام ہی نے اسے اختیار کیا ہے۔"شرح کتاب التوحید للغنیمان 1/189)
اور اعمش نے تمیم سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے عائشہؓ نے کہ انہوں نے کہا ساری حمد اسی اللہ کے لیے سزا وار ہے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے پھر خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ بیان کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑا کرتی تھی۔ “
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: سیدنا جبریل نے مجھے آواز دے کر کہا: ”اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے اور جو کچھ انہوں نے آپ کو جواب دیا ہے اسے بھی سن لیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کی ہے: اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا احد کے دن سے زیادہ گراں اور تکلیف دہ دن بھی کبھی آپ پر آیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ۔ ’’ہاں تمھاری قوم سے مجھے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت اور شدید تکلیف دہ تھی جو مجھے عقبہ کے دن پہنچی۔ جب میں نےاپنے آپ کو عبد یالیل بن عبد کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا مگر اس نے میری بات قبول نہ کی اس غم والم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا۔ مجھے قرن ثعالب پہنچ کر کچھ افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے انھوں نے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کلام اور ان کا جواب سن لیا ہے۔ اب اس نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے متعلق اسے جو حکم دیں اس کی تعمیل ہو گی۔ اس کے بعد پہاڑوں کےفرشتے نے آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! بات یہی ہے۔ اب آپ جو چاہیں میں کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائے گی۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق: حدیث:3231) 2۔ اس حدیث میں واضح طور پر اس اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور انھیں دیکھتا ہے۔ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں سمع اور بصر اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات ہیں جس کے متعلق ہم ابھی بیان کر آئے ہیں۔ جو شخص ان صفات کا انکار کرتا ہے ا سے ان سے آگاہ کیا جائے۔ اور دلائل و براہین سے اسے قائل کیا جائے اگر وہ اپنے انکار پر جما رہے اور حق کی وضاحت کے باوجود اسے قبول نہ کرے تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اس نے ایک ایسی چیز کا انکار کیا ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کے اجماع سے ثابت ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 199/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کرمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کی دو ذاتی صفات سمع اور بصر کا ثبوت ملتا ہے۔ جب کوئی سنائی اور دیکھائی دینے والی چیز وجود میں آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذاتی قدیم صفات کا تعلق ان سے قائم ہو جاتا ہے جبکہ معتزلہ ان صفات کو حادث کہتے ہیں قرآنی آیات اور احادیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بہر حال اس سلسلے میں اسلاف کا موقف ہی صحیح اوردرست ہے۔ واللہ المستعان۔ ( فتح الباري:459/13)
ترجمۃ الباب:
امام اعمش ، سیدنا تمیم سے، وہ عروہ سے وہ سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کے کان ہر قسم کی آواز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی: ”یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے متعلق آپ سے جھگڑ رہی تھی۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم کو ابن وہب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا مجھ کو یونس نے خبر دی‘ انہیں ابن شہاب نے‘ ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جبرئیل ؑ نے مجھے پکار کر کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی بات سن لی اور وہ بھی سن لیا جو انہوں نے آپ کو جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) said, " Gabriel (ؑ) called me and said, 'Allah has heard the statement of your people and what they replied to you.'"