تشریح:
1۔ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس روح کے متعلق سوال کیا تھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ مفسرین میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ارواح بنی آدم ہیں۔ جب وہ (روح) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے عذاب کیوں ہوتا ہے؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی جسامت تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ جان ہے جو ہر جاندار کے جسم میں ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ رہتا ہے اور اس کے نکلنے سے وہ مر جاتا ہے انسان نے اس کے متعلق بہت تحقیق کی ہے تاہم ابھی تک اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔
2۔واضح رہے کہ قرآن نے اسے نفس سے تعبیر کیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہا جاتا ہے۔ آیت کریمہ میں "أمر" سے مراد مامور ہے۔ لغت عرب میں یہ استعمال عام ہے۔
3۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پائی گئی ہے۔ امر اللہ روح نہیں بلکہ روح اس کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم روح سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعلق اللہ کی صفات سے ہے جو قدیم ہیں البتہ روح سے اس کا تعلق حادث ہے اور روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور امر اللہ کے علاوہ ہے۔ واللہ أعلم۔