تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے لیے انتہائی خیر خواہ اور ہمدرد تھے، ہرموقع پر اُمت کی فلاح وبہبود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ہوتی حتی کہ بعض کام جنھیں عام انسان معمولی خیال کرتا اس کے متعلق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی فرماتے تاکہ لوگ حصول ثواب میں شریک ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی حق تلفی کریں گے لیکن اس کے باوجود اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کوسفارش کرنے کی تلقین کرتے تاکہ وہ سفارش کے نتیجے میں ثواب کے حقدار ٹھہریں۔
2۔اس حدیث میں مشیت الٰہی کا واضح اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے میری زبان سے عطیہ دینے کے الفاظ نکلوا دیتا ہے ان الفاظ کے نکلتے ہی سفارش کرنے والے مفت میں ثواب حاصل کر لیتے ہیں اگرچہ ان کی سفارش مشیت الٰہی پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہو کر رہتا ہے۔ کوئی چیز اس کی مشیت کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی۔ تمام اسباب اس کی مشیت کے تحت ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسی بات کو ثابت کرنے کےلیے یہ حدیث لائے ہیں۔ واللہ أعلم۔