صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
18. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحشر میں ) ارشاد وہی اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا نقشہ کھینچنے والا ہے۔،،
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
18. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ: {هُوَ اللَّهُ الخَالِقُ البَارِئُ المُصَوِّرُ} [الحشر: 24]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
18. Chapter: “He is Allah, the Creator, the Inventor of all things, the Bestower of forms…”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحشر میں ) ارشاد وہی اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا نقشہ کھینچنے والا ہے۔،،
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “He is Allah, the Creator, the Inventor of all things, the Bestower of forms…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7476.
سیدنا ابو سیعد خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہیں غزوہ بنو مصطلق میں کچھ لونڈیاں بطور غنیمت ملیں۔ صحابہ کرام نے چاہا کہ ان سے ہم بستری کریں لیکن انہیں حمل نہ ٹھہرے، اس لیے انہوں نے نبی ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم عزل نہ بھی کرو تو کوئی قباحت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ لکھ دیا ہے جو وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔“ مجاہد نے قزعہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ابو سعید ؓ سے سنا، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”کوئی بھی جان جس کا پیدا ہونا مقدر ہے اللہ اسے ضرور پیدا کر کے رہے گا۔“
تشریح:
1۔عزل کے معنی ہیں: بیوی سے صحبت کرتے وقت اندام نہانی سے باہر انزال کرنا۔ بعض حالات میں اس کی اجازت ہے لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کے لیے اسے بنیاد قرار دینا نری حماقت ہے کیونکہ عزل، بیوی خاوند کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بعض اوقات اسے خفیہ طور پر زندہ درگورکرنا قراردیا ہے۔ 2۔مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز بیان ہی سے اس عمل کی کراہت معلوم ہوتی ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ اگرتم عزل نہ کرو تو زیادہ بہترہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق کے پیدا کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے وہ پیدا ہو کررہے گی۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544(1438) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرتم عزل کروگے تو حرج ہوگا یہ مطلب نہیں کہ عزل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر یہ مقصد ہوتا تو صاف کہہ دیا جاتا کہ عزل کر لیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 381/9)
3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو وجود میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ وجود میں آکر رہے گا، خواہ عزل کیا جائے یا نہ کیا جائے اور جس کا پیدا کرنا مقدر نہیں وہ کسی صورت میں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے بیوی سے مباشرت کے نتیجے میں کسی بچے کی پیدائش کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ ہو کر رہے گا، خواہ اس کے روکنے کے لیے کتنے ہی ذرائع ووسائل استعمال کر لیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی غالب آنے والا نہیں۔ وہ اکیلا ہی خالق ومالک ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ اکیلا ہی خالق، موجد اور تصویر بنانے والا ہے۔ میاں بیوی کو اس میں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے والا ہے، اس میں لوگوں کے چاہنے یا نہ چاہنے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہی اسے عدم سے وجود میں لانے والا، پھر شکم مادر (ماں کے پیٹ) میں اس کی صورت بنانے والا ہے۔دنیا کے تمام ماہرین اکھٹے ہو جائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے نقشے میں سرمو فرق نہیں لا سکتے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 295/1)(فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ) 4۔حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فعل خلق، غیر مخلوق ہے جبکہ اس کانتیجہ مخلوق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار کے افعال اور اس کی صفات کے طفیل پناہ طلب کرتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا مروی ہے: ’’اےاللہ! میں تیری رضا کے طفیل تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضا جو اس کی صفت ہے، اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے پناہ مانگی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا غیرمخلوق ہے کیونکہ اس کے طفیل پناہ طلب کی ہے۔ اگر یہ فعل مخلوق ہوتا تو اس کےذریعے سے پناہ نہ طلب کی جاتی کیونکہ مخلوق کے طفیل پناہ مانگنا جائز نہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی غیر مخلوق ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 229/6) ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث کے مطابق خالق کے معنی ہیں، مخلوق کو ازسرنو پیدا کرنے والا اور اشیاء کوعدم سے وجود میں لانے والا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ ایک ایسی صفت ہے جس میں اور کوئی مخلوق شریک نہیں۔ (فتح الباري: 481/13)
سیدنا ابو سیعد خدری ؓ سے روایت ہے کہ انہیں غزوہ بنو مصطلق میں کچھ لونڈیاں بطور غنیمت ملیں۔ صحابہ کرام نے چاہا کہ ان سے ہم بستری کریں لیکن انہیں حمل نہ ٹھہرے، اس لیے انہوں نے نبی ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم عزل نہ بھی کرو تو کوئی قباحت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وہ لکھ دیا ہے جو وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔“ مجاہد نے قزعہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ابو سعید ؓ سے سنا، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”کوئی بھی جان جس کا پیدا ہونا مقدر ہے اللہ اسے ضرور پیدا کر کے رہے گا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔عزل کے معنی ہیں: بیوی سے صحبت کرتے وقت اندام نہانی سے باہر انزال کرنا۔ بعض حالات میں اس کی اجازت ہے لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کے لیے اسے بنیاد قرار دینا نری حماقت ہے کیونکہ عزل، بیوی خاوند کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بعض اوقات اسے خفیہ طور پر زندہ درگورکرنا قراردیا ہے۔ 2۔مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز بیان ہی سے اس عمل کی کراہت معلوم ہوتی ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ اگرتم عزل نہ کرو تو زیادہ بہترہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق کے پیدا کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے وہ پیدا ہو کررہے گی۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3544(1438) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرتم عزل کروگے تو حرج ہوگا یہ مطلب نہیں کہ عزل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر یہ مقصد ہوتا تو صاف کہہ دیا جاتا کہ عزل کر لیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 381/9)
3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو وجود میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ وجود میں آکر رہے گا، خواہ عزل کیا جائے یا نہ کیا جائے اور جس کا پیدا کرنا مقدر نہیں وہ کسی صورت میں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے بیوی سے مباشرت کے نتیجے میں کسی بچے کی پیدائش کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ ہو کر رہے گا، خواہ اس کے روکنے کے لیے کتنے ہی ذرائع ووسائل استعمال کر لیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی غالب آنے والا نہیں۔ وہ اکیلا ہی خالق ومالک ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ اکیلا ہی خالق، موجد اور تصویر بنانے والا ہے۔ میاں بیوی کو اس میں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے والا ہے، اس میں لوگوں کے چاہنے یا نہ چاہنے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہی اسے عدم سے وجود میں لانے والا، پھر شکم مادر (ماں کے پیٹ) میں اس کی صورت بنانے والا ہے۔دنیا کے تمام ماہرین اکھٹے ہو جائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے نقشے میں سرمو فرق نہیں لا سکتے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 295/1)(فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ) 4۔حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فعل خلق، غیر مخلوق ہے جبکہ اس کانتیجہ مخلوق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار کے افعال اور اس کی صفات کے طفیل پناہ طلب کرتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا مروی ہے: ’’اےاللہ! میں تیری رضا کے طفیل تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضا جو اس کی صفت ہے، اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے پناہ مانگی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا غیرمخلوق ہے کیونکہ اس کے طفیل پناہ طلب کی ہے۔ اگر یہ فعل مخلوق ہوتا تو اس کےذریعے سے پناہ نہ طلب کی جاتی کیونکہ مخلوق کے طفیل پناہ مانگنا جائز نہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی غیر مخلوق ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 229/6) ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث کے مطابق خالق کے معنی ہیں، مخلوق کو ازسرنو پیدا کرنے والا اور اشیاء کوعدم سے وجود میں لانے والا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ ایک ایسی صفت ہے جس میں اور کوئی مخلوق شریک نہیں۔ (فتح الباري: 481/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے عفان نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے محمد بن یحییٰ بن حبان نے بیان کیا، ان سے ابن محیریز نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے کہ غزوہ بنو المصطلق میں انہیں باندیاں غنیمت میں ملیں تو انہوں نے چاہا کہ ان سے ہمبستری کریں لیکن حمل نہ ٹھہرے۔ چنانچہ لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے عزل کے متعلق پوچھا: تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم عزل بھی کرو تو کوئی قباحت نہیں مگر قیامت تک جس جان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونا لکھ دیا ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی (اس لیے تمہارا عزل کرنا بیکار ہے۔ موجودہ جبری نسل بندی کا جواز اس سے نکالنا بالکل غلط ہے۔ اور مجاہد نے قزعہ سے بیان کیا کہ انہوں نے ابو سعید خدری ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی جان جو پیدا ہونی ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اسے پیدا کر کے رہے گا۔
حدیث حاشیہ:
عزل کا معنی صحبت کرنے پر انزال کےوقت ذکر کو باہر نکال دینا ہے۔ آیت کے الفاظ خالق الباری المصور ہرسہ کا اس سے اثبات ہوتا ہے، یہی باب سے تعلق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): That during the battle with Bani Al-Mustaliq they (Muslims) captured some females and intended to have sexual relation with them without impregnating them. So they asked the Prophet (ﷺ) about coitus interrupt us. The Prophet (ﷺ) said, "It is better that you should not do it, for Allah has written whom He is going to create till the Day of Resurrection." Qaza'a said, "I heard Abu Sa'id saying that the Prophet (ﷺ) said, 'No soul is ordained to be created but Allah will create it."