قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الحَقَّ وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ} [سبأ: 23]، " وَلَمْ يَقُلْ: مَاذَا خَلَقَ رَبُّكُمْ ")

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ: {مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ} [البقرة: 255] وَقَالَ مَسْرُوقٌ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ: «إِذَا تَكَلَّمَ اللَّهُ بِالوَحْيِ سَمِعَ أَهْلُ السَّمَوَاتِ شَيْئًا، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ وَسَكَنَ الصَّوْتُ، عَرَفُوا أَنَّهُ الحَقُّ وَنَادَوْا»: {مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الحَقَّ} [سبأ: 23] وَيُذْكَرُ عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَحْشُرُ اللَّهُ العِبَادَ، فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ: أَنَا المَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ

7481. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ قَالَ عَلِيٌّ وَقَالَ غَيْرُهُ صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ قَالَ عَلِيٌّ وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرٌو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ بِهَذَا قَالَ سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ عَلِيٌّ قُلْتُ لِسُفْيَانَ قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ لِسُفْيَانَ إِنَّ إِنْسَانًا رَوَى عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَرْفَعُهُ أَنَّهُ قَرَأَ فُرِّغَ قَالَ سُفْيَانُ هَكَذَا قَرَأَ عَمْرٌو فَلَا أَدْرِي سَمِعَهُ هَكَذَا أَمْ لَا قَالَ سُفْيَانُ وَهِيَ قِرَاءَتُنَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا کہ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔اور جابر ؓ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایااللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔تشریح:یہ باب لا کر حضرت امام بخاری نے متکلمین کا رد کیا معتزلہ کا بھی جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام معاذاللہ ہے اور مخلوقات کی طرح ہے متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات  سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے  اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ   تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں  کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ   حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم  فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا  کرتا ہے کیا  اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں  حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام  نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ حروف ہیں نہ آواز بلکہ اللہ کا کلام عبارت ہے ایک کلام نفسی سے جو ایک صفت ازلی ہے اس کی ذات  سے قائم ہے اور سکوت کے منافی ہے اس کلام سے  اگر عربی میں تعبیر کرو تو وہ قرآن ہے اگر سریانی میں کرو تو وہ انجیل ہے اگر عبرانی میں کرو تو وہ   تورات ہے میں وحیدالزماں کہتا ہوں  کہ یہ ایک لغو خیال ہے جو متکلمین نے ایک قاعدہ فاسدہ کی بنا پر باندھا ہے انہوں نے یہ تصور کیا کہ اگر اللہ کے کلام میں حروف اور اصوات ہوں اور وہ ہر وقت جب اللہ چاہے اس سے صادر ہوتا رہے تو اللہ   حوادث کا محل ہو جائے گا اور جو حوادث کا محل ہو وہ حادث ہوتا ہے حالانکہ یہ قاعدہ خود ایک ڈھکوسلہ ہے اور مبنی علی الفاسد فاسد ہے ایک ذات قدیم  فاعل سے نئی نئی باتیں صادر ہونا اس کے حدوث کو مستلزم نہیں ہیں بلکہ اس کے کمال پر دال ہیں اور ہماری شریعت اور نیز اگلی شریعتیں سب اس بات سے بھری ہوئی ہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور فرشتے اس کا کلام سنتے ہیں اس کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں حضرت موسیٰ ؐ نے اس کا کلام سنا جس میں آواز تھی اللہ ہر روز ہر آن نئے نئے احکام صادر فرماتا ہے نئی نئی مخلوقات پیدا  کرتا ہے کیا  اس سے اس کی قدیم اور ازلی ہونے میں کوئی فرق آیا ہر گز نہیں خود فلاسفہ جنہوں نے اس قاعدہ فاسدہ کی بنا ڈالی ہے وہ کہتے ہیں عقل فعال قدیم ہے حالانکہ ہزار ہا حوادث اور اشیاء اس سے صادر ہوتے ہیں غرض مسئلہ کلام میں ہزاروں آدمی گمراہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے جاوۂ مستقیم سے منہ موڑ کر وہی تاویلات اختیار کی ہیں اور اپنی دانست میں یہ لوگ بڑے محقق اور دانشمند بنتے ہیں  حالانکہ محض بے وقوف اور محض بے عقل ہیں اللہ ہر شے پر قادر اور تمام کمالات سے موصوف ہے اور اس نے اپنی ایک ادنیٰ مخلوق انسان کو کلام کی طاقت دی ہے وہ کلام  نہ کرسکے اپنی آواز کسی کو سنا سکے اور اس کی مخلوق فراغت سے جب چاہیں باتیں کیا کریں یہ کیا نادانی کا خیال ہے۔

7481.

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ”ٖصفوان“ کو ”فا“ کو ساکن پڑھا ہے۔) ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ”تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔“ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ علی بن مدینی نےکہا: میں نے سفیان بن عیینہ نے اس امر کی تصدیق کی۔ میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا: ایک شخص عمرو بن دینار کے واسطے سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے فزع پڑھا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: عمرو بن دینار نے ایسا ہی پڑھا تھا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اس طرح سنا ہے یا نہیں سفیان بن عیینہ نےکہا: ہماری قراءت بھی اسی طرح ہے۔