قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ القِيَامَةِ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَغَيْرِهِمْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7510. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ قَالَ اجْتَمَعْنَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَذَهَبْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَذَهَبْنَا مَعَنَا بِثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ لَنَا عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ فَإِذَا هُوَ فِي قَصْرِهِ فَوَافَقْنَاهُ يُصَلِّي الضُّحَى فَاسْتَأْذَنَّا فَأَذِنَ لَنَا وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى فِرَاشِهِ فَقُلْنَا لِثَابِتٍ لَا تَسْأَلْهُ عَنْ شَيْءٍ أَوَّلَ مِنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ فَقَالَ يَا أَبَا حَمْزَةَ هَؤُلَاءِ إِخْوَانُكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ جَاءُوكَ يَسْأَلُونَكَ عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ فَقَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ فَإِنَّهُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَقُولُ أَنَا لَهَا فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ أَنَسٍ قُلْتُ لِبَعْضِ أَصْحَابِنَا لَوْ مَرَرْنَا بِالْحَسَنِ وَهُوَ مُتَوَارٍ فِي مَنْزِلِ أَبِي خَلِيفَةَ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَأَتَيْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَأَذِنَ لَنَا فَقُلْنَا لَهُ يَا أَبَا سَعِيدٍ جِئْنَاكَ مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فَلَمْ نَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَنَا فِي الشَّفَاعَةِ فَقَالَ هِيهْ فَحَدَّثْنَاهُ بِالْحَدِيثِ فَانْتَهَى إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ فَقَالَ هِيهْ فَقُلْنَا لَمْ يَزِدْ لَنَا عَلَى هَذَا فَقَالَ لَقَدْ حَدَّثَنِي وَهُوَ جَمِيعٌ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَمْ كَرِهَ أَنْ تَتَّكِلُوا قُلْنَا يَا أَبَا سَعِيدٍ فَحَدِّثْنَا فَضَحِكَ وَقَالَ خُلِقَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا مَا ذَكَرْتُهُ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَكُمْ بِهِ قَالَ ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَيَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

مترجم:

7510.

سیدنا معبد بن بلال عنزی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم اہل بصرہ جمع ہوئے اور سیان ثابت بنانی کو ساتھ لے کر سیدنا انس ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیث شفاعت کے متتعلق پوچھیں۔ سیدنا انس ؓ اس وقت اپنے محل میں تشریف فرما تھے۔ جب ہم انس ؓ  کے وہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ اپنے بستر بیٹھے تھے۔ ہم نے سیدنا ثابت سے کہہ رکھا تھا کہ ان سے حدیث شفاعت سے پہلے کوئی بات نہ پوچھنا، چنانچہ سیدنا ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ آپ کے (دینی) بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے یہ حدیث شفاعت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس ؓ نے کہا: محمد رسول اللہﷺ نے ہمیں حدیث سنائی، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے۔ پھر وہ سیدنا آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور (ان سے) عرض کریں گے: آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کریں۔ وہ کہیں گے: میں سفارش کے لائق نہیں ہوں۔ تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ چنانچہ لوگ سیدنا ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے تو وہ بھی کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم سیدنا موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ، یقیناً وہ اللہ تعالیٰ سے شرف ہمکلامی پانے والے ہیں۔ لوگ سیدنا موسیٰ ؑ کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے: میں اس قابل نہیں۔ البتہ تم عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے حکم اور اس کی خالص روح ہیں۔ تب لوگ سیدنا عیسیٰ ؑ کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں البتہ حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ جب وہ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ”میں اس (شفاعت کرنے) کے لائق ہوں۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی۔ اندریں حالات (اللہ تعالیٰ) اپنے لیے مجھے تعریفی کلمات الہام کرے گا جن کے ذریعے سے میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کروں گا جو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں پھر جب میں اللہ کی تعریفیں بیان کروں گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، بات کرو تمہاری بات سنی جائے گی، جو مانگو وہ دیا جائے گا، سفارش کرو وہ قبول کی جائے گی۔ پھر میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ کہا جائے گا: جاؤ دوزخ سے ان لوگوں کو نکال لاؤ جن کے دلوں میں ایک جو کے برابر ایمان ہے۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور تعمیل حکم کروں گا۔ پھر میں واپس آؤں گا اور انھی تعریفی کلمات سے اللہ کی حمد وثنا کروں گا اور اللہ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھاؤ۔ کہو آپ کی بات سنی جائے گی۔ سوال کرو آپ کا مطلوب دیا جائے گا۔ سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، مجھے کہا جائے گا، جاؤ اور ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لاؤ جن کے دلوں میں ذرہ یا رائی کے برابر بھی ایمان ہے۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور تعمیل کروں گا۔ میں واپس آؤں گا اور تعریفی کلمات سے اللہ کی حمد وثنا کروں گا اور اللہ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھاؤ، کہو، آپ کی بات سنی جائے گی سوال کرو، آپ کا مطلوب دیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے رب! میری امت مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لاؤ جن کے دلوں میں رائی کے دانے سے بھی کم بلکہ کمتر ایمان ہو، میں جاؤں گا اور تعمیل حکم کروں گا۔“ پھر جب ہم سیدنا انس ؓ کے پاس سے واپس آئے تو میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے کہا: ہمیں امام حسن بصری کے پاس بھی جانا چاہیے وہ اس وقت (حجاج بن یوسف کے ڈر سے ) ابو خلیفہ کے مکان میں چھپے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان سے وہ حدیث بیان کریں جو ہمیں سیدنا انس ؓ نے سنائی ہے، لہذا ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا: اے ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی سیدنا انس بن مالک ؓ کے ہاں سے آئے ہیں انہوں نے جو حدیث شفاعت بیان کی ہے وہ ہم نے کسی سے نہیں سنی۔ سیدنا حسن بصری نے کہا: اسے بیان کرو۔ ہم نے ان سے ساری حدیث بیان کی۔ جب ہم حدیث کے آخر مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا: اور بیان کرو۔ ہم نے کہا: اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کی۔ سیدنا حسن بصری نے کہا: انہوں نے مجھے بیس سال پہلے یہ حدیث بیان کی تھی جبکہ وہ پورے قوی نوجوان تھے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی ماندہ حدیث بھول گئے ہیں انہوں نے تمہارے باتیں کرنے کے پیش نظر اسے بیان نہیں کیا۔ ہم نے عرض کیا: ابو سعید! آپ ہم سے حدیث بیان کریں۔ وہ ہنس کر بولے: انسان بہت جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس اس کا ذکر ہی اسے بیان کرنے کے لیے کیا تھا۔ سیدنا انس ؓ نے مجھ سے یہی حدیث بیان کی تھی جو تمہیں بیان کی ہے (اور اس میں یہ الفاظ مزید بڑھائے)، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: میں چوتھی بار واپس آؤں گا اور انھی تعریفی کلمات سے اللہ کی حمد وثناء کروں گا پھر اللہ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ جو کہو گے اسے سنا جائے گا جو مانگو گے دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! ان لوگوں کو بھی جہنم سے نکالنے کی اجازت دے جنہوں نے صرف ”لا إله اللہ“ ہی کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میری عزت، میرے جلال، میری کبریائی اور میری عظمت کی قسم! میں دوزخ سے ان لوگوں کو بھی نکالوں گا جنہوں نے صرف ”لا إله اللہ“ کہا ہے۔“