صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
24. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
24. Chapter: “Some faces that Day shall be Nadirah. Looking at their Lord.”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Some faces that Day shall be Nadirah. Looking at their Lord.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7510.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب رات کے وقت تہجد کی نماز پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے حمد وثنا ہے، تو آسمان وزمین کو تھامنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمان وزمین اور جوان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔ اور تو ہی ہر قسم کی تعریف کی سزاوار ہے۔ توآسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کو روشن کرنے والا ہے۔ تو سچا تیری بات سچی، تیرا وعدہ مبنی برحقیقت اور تیری ملاقات بھی حقیقت ہے، جنت سچ، دوذخ برحق اور قیامت بھی مبنی برحقیقت ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے حضور سر تسلیم خم کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسا کیا۔ تیرے پاس ہی اپنے جھگڑے لے گیا اور تیری ہی مدد سے میں نے مقابلہ کیا۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں کروں گا اور وہ گناہ بھی جو چھپ کر کیے، نیز وہ بھی جو علانیہ کیے اور وہ گناہ بھی جو بخش دے جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ قیس بن سعد ابو زبیر نے امام طاؤس کے حوالے سے (قیم کے بجائے) قیام بیان کیا ہے۔ امام مجاہد نے کہا: قیوم وہ ہے جو پر چیز کی نگرانی کرنے والا ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قیام پڑھا ہے۔ قیوم اور قیام دونوں مدح کے لیے ہیں۔
تشریح:
1۔ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا ذکر ہے جو قیامت کے دن ہوگی۔ اس ملاقات سے مراد بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو برحق ہے اور اس کا انکار کرنے والے گمراہ اور بے دین ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بیس سے زیادہ آیات میں اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اہل سنت نے ان آیات سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7443) اللہ تعالیٰ نے اس ملاقات سے انکار اور تکذیب کو کفر قرار دیا ہے۔ اس انکار کی موجودگی میں کوئی عمل کارگر نہیں ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (العنکبوت 23) ایسے لوگوں کی رحمت الٰہی کی اُمید کیسے ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس ملاقات کے قائل ہی نہیں ہیں، لہذا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور مایوس ہی رہیں گے جبکہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہواوقت جلد ہی آنے والا ہے۔‘‘(العنکبوت: 5) یعنی موت کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت انھیں اپنی آغوش میں لے لے گی۔ یہ دونوں طرح کی آیات ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ 2۔بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے دیدار الٰہی ثابت کیا ہے جو مبنی برحقیقت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اور اللہ اہل ایمان پر بڑا مہربان ہے۔جس دن وہ اس(اللہ) سے ملاقات کریں گے ،ان کی دعا سلام ہوگی۔‘‘(الأحزاب 43۔44) اہل لغت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ملاقات سے مراد روبرو ہونا اور ایک دوسرے کو کھلی آنکھ سے دیکھناہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ: 488/6) 3۔واضح رہے کہ ملاقات میں دو چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے: ایک تو چل کر دوسرے کی طرف جانا اور دوسرا اسے کھلی آنکھ سے دیکھنا جبکہ بعض اہل کلام نے اس ملاقات کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد اعمال کی جزا دینا ہے۔ یہ تاویل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کےموقف کے خلاف ہےکیونکہ قرآنی آیات سے ملاقات اور جزا کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس دن وہ اس(اللہ) سے ملاقات کریں گے، ان کی دعا، سلام ہوگی اور اس نے ان کے لیے عمدہ اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘(الأحزاب: 44) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملاقات اور اجر کریم دو الگ الگ نعمتیں ہیں، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ تیرا وعدہ برحق، تیری ملاقات مبنی برحقیقت اور جنت ودوزخ بھی سچ ہیں۔ اس حدیث میں ملاقات اور جنت و دوزخ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اگر ملاقات سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا وسزا ہو تو اس کے بعد جنت ودوزخ کو الگ بیان کرنے کا کیا مطلب؟ کیونکہ جنت فرمانبردار لوگوں کی جزا اور جہنم نافرمانوں کے لیے بطورسزا ہے۔ بہرحال ان احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دیدار الٰہی پر استدلال کیا ہے جو آپ کی دقت فہم اور قوت استنباط کی واضح دلیل ہے۔ 4۔واضح رہے کہ قیس بن سعد کی روایت کو امام مسلم (حدیث :769) اور ابوداؤد علیہ السلام (حدیث:771) نے، نیز ابوالزبیر کی روایت کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا(حدیث:511) میں متصل سندسے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 531/13) غزوہ حنین کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر کچھ انصار کو ملال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث (7241) میں اس تسلی کا بیان ہے۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن دو حوض ملیں گے: ایک میدان محشر میں ہوگا جہاں سے فرشتے بعض مرتدین کو پانی پینے سے روک دیں گے اور دوسرا حوض جنت میں ہوگا، جبکہ معتزلہ نے حوض کا انکار کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صفات کے متعلق چوتھا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔وہ مسئلہ اہل ایمان کے لیے قیامت کے دن روئیت باری تعالیٰ(اللہ تعالیٰ کا دیدارکرنا) ہے۔سلف صالحین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار صرف اہل ایمان کو نصیب ہوگا جبکہ کفار اس سعادت سے محروم ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"ہرگز نہیں،بلاشبہ وہ(کافر) اس دن اپنے رب(کے دیدار) سے یقیناً اوٹ میں رکھے(روکے) جائیں گے۔"(المطففین 83/15) فاجر قسم کے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں نیک لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے شرف یاب ہوں گے۔بصورت دیگر فریقین میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم قیامت کے دن اپنے رب کو کھلی آنکھ سے دیکھو گے۔(صحیح البخاری التوحید حدیث 7435)واضح رہے کہ اہل ایمان کو دیدار الٰہی کی یہ سعادت قیامت کے مختلف مراحل اور جنت میں داخلے کے بعد حاصل ہوگی،نیز اہل ایمان کا اپنے رب کریم کو دیکھنا حقیقی ہوگا،البتہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق جیسے اللہ تعالیٰ چاہے گا اس کے مطابق ہوگا۔کچھ لوگ ،یعنی حطلہ اور معتزلہ اس دیدار حقیقی کے منکر ہیں۔وہ اس روئیت سے اللہ تعالیٰ کے ثواب کی روئیت مراد لیتے ہیں یا یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد روئیت علم ویقین ہے،حالانکہ یہ قول کتاب وسنت کی ظاہر نصوص کی خلاف ہے،نیز علم ویقین تو نیک لوگوں کو دنیا ہی میں حاصل ہے اور کفارکو بھی حاصل ہوجائے گا۔واللہ اعلم۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب رات کے وقت تہجد کی نماز پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے حمد وثنا ہے، تو آسمان وزمین کو تھامنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمان وزمین اور جوان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔ اور تو ہی ہر قسم کی تعریف کی سزاوار ہے۔ توآسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کو روشن کرنے والا ہے۔ تو سچا تیری بات سچی، تیرا وعدہ مبنی برحقیقت اور تیری ملاقات بھی حقیقت ہے، جنت سچ، دوذخ برحق اور قیامت بھی مبنی برحقیقت ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے حضور سر تسلیم خم کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسا کیا۔ تیرے پاس ہی اپنے جھگڑے لے گیا اور تیری ہی مدد سے میں نے مقابلہ کیا۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور جو بعد میں کروں گا اور وہ گناہ بھی جو چھپ کر کیے، نیز وہ بھی جو علانیہ کیے اور وہ گناہ بھی جو بخش دے جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ قیس بن سعد ابو زبیر نے امام طاؤس کے حوالے سے (قیم کے بجائے) قیام بیان کیا ہے۔ امام مجاہد نے کہا: قیوم وہ ہے جو پر چیز کی نگرانی کرنے والا ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قیام پڑھا ہے۔ قیوم اور قیام دونوں مدح کے لیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا ذکر ہے جو قیامت کے دن ہوگی۔ اس ملاقات سے مراد بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو برحق ہے اور اس کا انکار کرنے والے گمراہ اور بے دین ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بیس سے زیادہ آیات میں اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اہل سنت نے ان آیات سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7443) اللہ تعالیٰ نے اس ملاقات سے انکار اور تکذیب کو کفر قرار دیا ہے۔ اس انکار کی موجودگی میں کوئی عمل کارگر نہیں ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (العنکبوت 23) ایسے لوگوں کی رحمت الٰہی کی اُمید کیسے ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس ملاقات کے قائل ہی نہیں ہیں، لہذا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور مایوس ہی رہیں گے جبکہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہواوقت جلد ہی آنے والا ہے۔‘‘(العنکبوت: 5) یعنی موت کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت انھیں اپنی آغوش میں لے لے گی۔ یہ دونوں طرح کی آیات ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ 2۔بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے دیدار الٰہی ثابت کیا ہے جو مبنی برحقیقت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اور اللہ اہل ایمان پر بڑا مہربان ہے۔جس دن وہ اس(اللہ) سے ملاقات کریں گے ،ان کی دعا سلام ہوگی۔‘‘(الأحزاب 43۔44) اہل لغت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ملاقات سے مراد روبرو ہونا اور ایک دوسرے کو کھلی آنکھ سے دیکھناہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ: 488/6) 3۔واضح رہے کہ ملاقات میں دو چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے: ایک تو چل کر دوسرے کی طرف جانا اور دوسرا اسے کھلی آنکھ سے دیکھنا جبکہ بعض اہل کلام نے اس ملاقات کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد اعمال کی جزا دینا ہے۔ یہ تاویل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کےموقف کے خلاف ہےکیونکہ قرآنی آیات سے ملاقات اور جزا کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جس دن وہ اس(اللہ) سے ملاقات کریں گے، ان کی دعا، سلام ہوگی اور اس نے ان کے لیے عمدہ اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘(الأحزاب: 44) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملاقات اور اجر کریم دو الگ الگ نعمتیں ہیں، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ تیرا وعدہ برحق، تیری ملاقات مبنی برحقیقت اور جنت ودوزخ بھی سچ ہیں۔ اس حدیث میں ملاقات اور جنت و دوزخ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اگر ملاقات سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا وسزا ہو تو اس کے بعد جنت ودوزخ کو الگ بیان کرنے کا کیا مطلب؟ کیونکہ جنت فرمانبردار لوگوں کی جزا اور جہنم نافرمانوں کے لیے بطورسزا ہے۔ بہرحال ان احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دیدار الٰہی پر استدلال کیا ہے جو آپ کی دقت فہم اور قوت استنباط کی واضح دلیل ہے۔ 4۔واضح رہے کہ قیس بن سعد کی روایت کو امام مسلم (حدیث :769) اور ابوداؤد علیہ السلام (حدیث:771) نے، نیز ابوالزبیر کی روایت کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا(حدیث:511) میں متصل سندسے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 531/13) غزوہ حنین کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر کچھ انصار کو ملال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث (7241) میں اس تسلی کا بیان ہے۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن دو حوض ملیں گے: ایک میدان محشر میں ہوگا جہاں سے فرشتے بعض مرتدین کو پانی پینے سے روک دیں گے اور دوسرا حوض جنت میں ہوگا، جبکہ معتزلہ نے حوض کا انکار کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ثابت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رات کے وقت تہجد کی نماز میں یہ دعا کرتے تھے تھے: «اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ الْحَقُّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ خَاصَمْتُ وَبِكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ» اے اللہ! اے ہمارے رب! حمد تیرے ہی لیے ہے، تو آسمان و زمین کا تھامنے والا ہے اور ان سب کا جو ان میں ہیں اور تیرے ہی لیے حمد ہے، تو آسمان و زمین کا نور ہے اور ان سب کا جو ان میں ہیں۔ تو سچا ہے، تیرا قول سچا، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی ہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، قیامت سچ ہے۔ اے اللہ! میں تیرے سامنے جھکا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیرے پاس اپنے جھگڑے لے گیا اور تیری ہی مدد سے مقابلہ کیا، پس تو مجھے معاف کر دے، میرے وہ گناہ بھی جو میں پہلے کر چکا ہوں اور وہ بھی جو بعد میں کروں گا اور وہ بھی جو میں نے پوشیدہ طور پر کئے اور وہ بھی جو ظاہر طور پر کیا اور وہ بھی جن میں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ نے کہا کہ قیس بن سعد اور ابو الزبیر نے طاؤس کے حوالہ سے «قيام» بیان کیا اور مجاہد نے «قيوم» کہا یعنی ہر چیز کی نگرانی کرنے والا اور عمر ؓ نے «قيام» پڑھا اور دونوں ہی مدح کے لیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
قیام مبالغہ کا صیغہ ہے معنی وہی ہے یعنی خوب تھامنے والا۔ قیس کی روایت کو مسلم اور ابوداؤد نےاور ابوالزبیر کی روایت کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Whenever the Prophet (ﷺ) offered his Tahajjud prayer, he would say, "O Allah, our Lord! All the praises are for You; You are the Keeper (Establisher or the One Who looks after) of the Heavens and the Earth. All the Praises are for You; You are the Light of the Heavens and the Earth and whatever is therein. You are the Truth, and Your saying is the Truth, and Your promise is the Truth, and the meeting with You is the Truth, and Paradise is the Truth, and the (Hell) Fire is the Truth. O Allah! I surrender myself to You, and believe in You, and I put my trust in You (solely depend upon). And to You I complain of my opponents and with Your Evidence I argue. So please forgive the sins which I have done in the past or I will do in the future, and also those (sins) which I did in secret or in public, and that which You know better than I. None has the right to be worshipped but You."