تشریح:
1۔معتزلہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ وہ اسے ہوا یا درخت میں پیدا کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو کلام سنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں پیدا کیا تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ اس میں رسالت اور کلام کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔ رسالت کے لیے کوئی فرشتہ وحی لاتا ہے اور کلام کرنا براہ راست ہوتا ہے ۔2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ ’’حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تو ایسا رسول ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے پس پردہ براراست گفتگو کی۔ درمیان میں مخلوق وغیرہ کا کوئی واسطہ نہ تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702 و فتح الباري:618/11)
3۔بہر حال اس حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا صاف صاف اثبات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بغیر واسطے کے جس سے چاہے جب چاہے کلام کر سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا۔ جو لوگ اس کی تاویلیں کرتے ہیں وہ درحقیقت صفت کلام کے انکار کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ (قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ)