صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
24. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
24. Chapter: “Some faces that Day shall be Nadirah. Looking at their Lord.”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Some faces that Day shall be Nadirah. Looking at their Lord.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7515.
سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا: ”زمانہ اپنی اس قدیم حالت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم ، ایک مضر قبیلے کا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ اور یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ”یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟“ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: ”یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: ”کیا بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟“ ہم نے کہا: کیوں نہیں؟ پھر فرمایا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر آپخاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: ”کیا یہ قربانی کا دن نہیں“؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے میں اور اس شہر میں ہے۔ اور عنقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور تمہارے اعمال کے متعلق تم سے پوچھے گا۔ دیکھنا تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، خبردار! جو شخص حاضر ہے وہ غائب کو یہ پیغام پہنچا دے۔ ممکن ہے جن کو پیغام پہنچایا جائے وہ براہ راست سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں۔ چنانچہ راوی محمد بن سیرین جب اس کا ذکر کرتے تو کہتے: نبیﷺ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”خبردار! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے؟ کیا میں نے پہنچا دیا؟“
تشریح:
1۔مشرکین مکہ اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے اسی طرح حرمت والے مہینے کو اپنے لیے حلال اور اس کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دے لیتے۔ اس عمل کو (نسئي) قرار دیا گیا قرآن کریم نے اس عمل کو کفر میں زیادتی کہا ہے حتی کہ انھوں نے حرمت والے مہینوں کی تخصیص بھی ختم کر دی تھی۔ وہ سال کے مطلق چار مہینوں کو حرام قرار دے لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تواللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تمام مہینے اپنے اصل حال پر لوٹ آئے تھے اور حج ذوالحجہ کے مہینے ہی میں ہوا تھا۔ حدیث کے آغاز میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے نیز رجب کو قبیلہ مضرکی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ اس مہینے کا بہت احترام کرتا تھا۔ 2۔چونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے ان احادیث سے مختلف انداز میں رؤیت باری تعالیٰ کو ثابت فرمایا ہے جبکہ معتزلہ نے اپنی عقل کے بل بوتے پر اس کا انکار کیا ہے اس سلسلے میں کچھ آیات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے خیال کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں اور اپنے انکارکے لیے جواز مہیا کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔‘‘(الأنعام:103) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک موقع پر اس آیت کو اسی مقصد کے لیے پیش کیا تھا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3068) بلا شبہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا البتہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے ضرورمحو دیدار ہوں گے جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نیز اس آیت میں "ادراک" کی نفی ہے جس کے معنی کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنا ہیں البتہ رؤیت اور چیز ہے۔ 3۔منکرین رؤیت ایک دوسری آیت بھی اپنی مقصد بر آری کے لیے پیش کرتے ہیں حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔‘‘(الأعراف:143) لیکن اس آیت سے بھی مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ واقعی اس فانی دنیا میں ان فانی آنکھوں سے اس زندہ جاوید ہستی کا دیدار نا ممکن ہے لیکن جب یہ فانی دنیا تبدیل ہو جائے گی اور انسانی ساخت بالخصوص اس کی آنکھوں میں تبدیلی لائی جائے گی تو وہ دیدارالٰہی کی متحمل ہو سکیں گی۔ چنانچہ اُخروی زندگی میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ 4۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق بیس (20) سے زیادہ احادیث جمع کی ہیں پھر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حادی الارواح میں ان کی پیروی کرتے ہوئے تیس (30) احادیث جمع کی ہیں ان میں سے اکثر کی سندیں جید ہیں۔ امادارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے انھوں نے فرمایا: رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق میرے پاس سترہ (17) صحیح احادیث موجود ہیں۔ (فتح الباري:536/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مسلمان کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن میدان محشر میں اپنے رب کو ضرور دیکھیں گے۔ پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الٰہی نصیب ہو گا۔ جیسا کہ متعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ہم قیامت کے دن اپنے رب کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں یا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی وقت یا مشقت محسوس نہیں ہو گی۔ (مجموع الفتاوی:485/6) استاد محترم شیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان نے منکرین رؤیت کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کیے ہیں پھر ان کا شافی جواب دیا ہے۔ خوف طوالت سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صفات کے متعلق چوتھا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔وہ مسئلہ اہل ایمان کے لیے قیامت کے دن روئیت باری تعالیٰ(اللہ تعالیٰ کا دیدارکرنا) ہے۔سلف صالحین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار صرف اہل ایمان کو نصیب ہوگا جبکہ کفار اس سعادت سے محروم ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"ہرگز نہیں،بلاشبہ وہ(کافر) اس دن اپنے رب(کے دیدار) سے یقیناً اوٹ میں رکھے(روکے) جائیں گے۔"(المطففین 83/15) فاجر قسم کے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں نیک لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے شرف یاب ہوں گے۔بصورت دیگر فریقین میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم قیامت کے دن اپنے رب کو کھلی آنکھ سے دیکھو گے۔(صحیح البخاری التوحید حدیث 7435)واضح رہے کہ اہل ایمان کو دیدار الٰہی کی یہ سعادت قیامت کے مختلف مراحل اور جنت میں داخلے کے بعد حاصل ہوگی،نیز اہل ایمان کا اپنے رب کریم کو دیکھنا حقیقی ہوگا،البتہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق جیسے اللہ تعالیٰ چاہے گا اس کے مطابق ہوگا۔کچھ لوگ ،یعنی حطلہ اور معتزلہ اس دیدار حقیقی کے منکر ہیں۔وہ اس روئیت سے اللہ تعالیٰ کے ثواب کی روئیت مراد لیتے ہیں یا یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد روئیت علم ویقین ہے،حالانکہ یہ قول کتاب وسنت کی ظاہر نصوص کی خلاف ہے،نیز علم ویقین تو نیک لوگوں کو دنیا ہی میں حاصل ہے اور کفارکو بھی حاصل ہوجائے گا۔واللہ اعلم۔
سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا: ”زمانہ اپنی اس قدیم حالت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم ، ایک مضر قبیلے کا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ اور یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ”یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟“ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: ”یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: ”کیا بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟“ ہم نے کہا: کیوں نہیں؟ پھر فرمایا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر آپخاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: ”کیا یہ قربانی کا دن نہیں“؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے میں اور اس شہر میں ہے۔ اور عنقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور تمہارے اعمال کے متعلق تم سے پوچھے گا۔ دیکھنا تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، خبردار! جو شخص حاضر ہے وہ غائب کو یہ پیغام پہنچا دے۔ ممکن ہے جن کو پیغام پہنچایا جائے وہ براہ راست سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں۔ چنانچہ راوی محمد بن سیرین جب اس کا ذکر کرتے تو کہتے: نبیﷺ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”خبردار! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے؟ کیا میں نے پہنچا دیا؟“
حدیث حاشیہ:
1۔مشرکین مکہ اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے اسی طرح حرمت والے مہینے کو اپنے لیے حلال اور اس کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دے لیتے۔ اس عمل کو (نسئي) قرار دیا گیا قرآن کریم نے اس عمل کو کفر میں زیادتی کہا ہے حتی کہ انھوں نے حرمت والے مہینوں کی تخصیص بھی ختم کر دی تھی۔ وہ سال کے مطلق چار مہینوں کو حرام قرار دے لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تواللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تمام مہینے اپنے اصل حال پر لوٹ آئے تھے اور حج ذوالحجہ کے مہینے ہی میں ہوا تھا۔ حدیث کے آغاز میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے نیز رجب کو قبیلہ مضرکی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ اس مہینے کا بہت احترام کرتا تھا۔ 2۔چونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے ان احادیث سے مختلف انداز میں رؤیت باری تعالیٰ کو ثابت فرمایا ہے جبکہ معتزلہ نے اپنی عقل کے بل بوتے پر اس کا انکار کیا ہے اس سلسلے میں کچھ آیات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے خیال کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں اور اپنے انکارکے لیے جواز مہیا کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔‘‘(الأنعام:103) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک موقع پر اس آیت کو اسی مقصد کے لیے پیش کیا تھا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3068) بلا شبہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا البتہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے ضرورمحو دیدار ہوں گے جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نیز اس آیت میں "ادراک" کی نفی ہے جس کے معنی کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنا ہیں البتہ رؤیت اور چیز ہے۔ 3۔منکرین رؤیت ایک دوسری آیت بھی اپنی مقصد بر آری کے لیے پیش کرتے ہیں حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔‘‘(الأعراف:143) لیکن اس آیت سے بھی مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ واقعی اس فانی دنیا میں ان فانی آنکھوں سے اس زندہ جاوید ہستی کا دیدار نا ممکن ہے لیکن جب یہ فانی دنیا تبدیل ہو جائے گی اور انسانی ساخت بالخصوص اس کی آنکھوں میں تبدیلی لائی جائے گی تو وہ دیدارالٰہی کی متحمل ہو سکیں گی۔ چنانچہ اُخروی زندگی میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ 4۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق بیس (20) سے زیادہ احادیث جمع کی ہیں پھر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حادی الارواح میں ان کی پیروی کرتے ہوئے تیس (30) احادیث جمع کی ہیں ان میں سے اکثر کی سندیں جید ہیں۔ امادارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے انھوں نے فرمایا: رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق میرے پاس سترہ (17) صحیح احادیث موجود ہیں۔ (فتح الباري:536/13) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مسلمان کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن میدان محشر میں اپنے رب کو ضرور دیکھیں گے۔ پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الٰہی نصیب ہو گا۔ جیسا کہ متعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ہم قیامت کے دن اپنے رب کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں یا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی وقت یا مشقت محسوس نہیں ہو گی۔ (مجموع الفتاوی:485/6) استاد محترم شیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان نے منکرین رؤیت کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کیے ہیں پھر ان کا شافی جواب دیا ہے۔ خوف طوالت سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے بیان کیا اور ان سے ابوبکرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمانہ اپنی اصلی قدیم ہیئت پر گھوم کر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جن میں چار مہینے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ پھر فرمایا یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے پھر آپ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر فرمایا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم نے کہا کیوں نہیں پھر فرمایا کہ پھر تمہارا خون اور تمہارے اموال۔ محمد نے بیان کیا کہ مجھے خیال ہے کہ یہ بھی کہا کہ اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر اور اس مہینے میں ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تمہارے اعمال کے متعلق تم سے سوال کرے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ آگاہ ہو جاؤ! جو موجود ہیں وہ غیر حاضروں کو میری یہ بات پہنچا دیں۔ شاید کوئی جسے بات پہنچائی گئی ہو وہ یہاں سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو۔ چنانچہ محمد بن سیرین جب اس کا ذکر کرتے تو کہتے کہ نبی کریم ﷺ نے سچ فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں کیا میں نے پہنچا دیا؟ ہاں! کیا میں نے پہنچا دیا؟
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ حدیث اس لیے لائے کہ اس میں اللہ سےملنے کا ذکر ہے۔ رجب کے ساتھ مضر قبیلہ کا ذکر اس لیے لائےکہ مضر والے رجب کا بہت ادب کیا کرتے تھے۔ آخر میں قرآن وحدیث یاد رکھنے والوں کا ذکر آیا۔ چنانچہ بعد کےزمانوں میں امام بخاری، امام مسلم جیسے محدثین کرام پیدا ہوئے جنہوں نے ہزاروں احادیث کو یاد رکھا اور فن حدیث کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک آنے والے ان کے لیے دعاگو رہیں گے۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے اوراللہ تعالیٰ تمام اگلوں او ر پچھلوں کو جنت الفردوس میں جمع فرمائے آمین یارب العالمین۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمان کے بے عزتی کرنا کعبہ شریف کی مکۃ المکرمہ کی بے عزتی کرنے کےبرابر ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اس گناہ کے ارتکاب سےبچ گئےہیں۔ إلاماشاءاللہ۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو خانہ جنگی بدترین گناہ ہے ان کے مال و جان پر ناحق ہاتھ ڈالنا بھی اکبر الکبائر گناہوں سے ہے۔ آخر میں تبلیغ کے لیے بھی آپ نے تاکید شدید فرمائی وفقنا اللہ بمایحب ویرضیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Time has come back to its original state which it had when Allah created the Heavens and the Earth, the year is twelve months, of which four are sacred; (and out of these four) three are in succession, namely, Dhul-Qa'da, Dhul-Hijja and Muharram, and (the fourth one) Rajab Mudar which is between Jumad (Ath-Tham) and Sha'ban." The Prophet (ﷺ) then asked us, "Which month is this?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know (it) better." He kept quiet so long that we thought he might call it by another name. Then he said, "Isn't it Dhul-Hijja?" We said, "Yes." He asked "What town is this?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know (it) better.' Then he kept quiet so long that we thought he might call it by another name. He then said, "Isn't it the (forbidden) town (Makkah)?" We said, "Yes." He asked, "What is the day today?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know (it) better. Then he kept quiet so long that we thought that he might call it by another name. Then he said, "Isn't it the Day of An-Nahr (slaughtering of sacrifices)?" We said, "Yes." Then he said, "Your blood (lives), your properties," (the sub narrator Muhammad, said: I think he also said): "..and your honor) are as sacred to one another like the sanctity of this Day of yours, in this town of yours, in this month of yours. You shall meet your Lord and He will ask you about your deeds. Beware! Don't go astray after me by striking the necks of one another. Lo! It is incumbent upon those who are present to inform it to those who are absent for perhaps the informed one might comprehend it (understand it) better than some of the present audience." Whenever the sub-narrator Muhammad mentioned that statement, he would say, "The Prophet (ﷺ) said the truth.") And then the Prophet (ﷺ) added, "No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message to you! No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message to you?"