تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان دنیا میں جو کام کرتا ہے وہ اس سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات وہ جنت میں بھی اسے کرنے کی خواہش کرے گا۔ حالانکہ وہاں اس قسم کی خواہش کی نہ تو کوئی ضرورت ہوگی اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہو گا۔ تاہم اللہ تعالیٰ جنت میں اہل جنت کی خواہش کا احترام کرے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہاں (جنت میں)تمھارے لیے وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔‘‘ (حم السجدة: 41)
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے ہم کلام ہوگا اور صفت کلام، علامت کمال ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے۔ وہ جب چاہے گا۔ جس سے چاہے کا کلام کرے گا۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے یا دوراز کار تاویل کی ہے وہ راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں۔