تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی الفاظ جو ہمارے منہ سے نکلتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جو مخلوق ہے اور قرآن کریم جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے یعنی تلاوت اور مَتلُو میں فرق واضح کیا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ قاری کو قراءت بھی قدیم ہے۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن کے ساتھ زبان کی حرکت قاری کا فعل ہے جو مخلوق اور حادث ہے اور جوپڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے جیسا کہ اللہ کریم کا ذکر کرتے وقت زبان کا حرکت کرنا بندے کا فعل اور حادث ہے اور جس کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ وہ قدیم ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ آئندہ تراجم میں بھی اسی مقصد کو بیان کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 623/13)