صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
28. باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ’’ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا‘‘
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
28. بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا المُرْسَلِينَ} [الصافات: 171]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
28. Chapter: “And, verily, Our Word has gone forth of old for Our slaves – the Messengers”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ کا فرمان ( سورۃ والصافات میں ) کہ’’ ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And, verily, Our Word has gone forth of old for Our slaves – the Messengers”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7524.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ ﷺ کھجور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ آپ چند یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک نے کہا: ان سے روح کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے آپ سے روح کے متعلق پوچھ ہی لیا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جبکہ میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ان سے فرما دیں کہ روح تو میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ پھر ان یہودیوں نے ایک دوسرے سے کہا: ہم نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان سے کچھ نہ پوچھو۔
تشریح:
1۔ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس روح کے متعلق سوال کیا تھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ مفسرین میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ارواح بنی آدم ہیں۔ جب وہ (روح) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے عذاب کیوں ہوتا ہے؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی جسامت تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ جان ہے جو ہر جاندار کے جسم میں ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ رہتا ہے اور اس کے نکلنے سے وہ مر جاتا ہے انسان نے اس کے متعلق بہت تحقیق کی ہے تاہم ابھی تک اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ 2۔واضح رہے کہ قرآن نے اسے نفس سے تعبیر کیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہا جاتا ہے۔ آیت کریمہ میں "أمر" سے مراد مامور ہے۔ لغت عرب میں یہ استعمال عام ہے۔ 3۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پائی گئی ہے۔ امر اللہ روح نہیں بلکہ روح اس کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم روح سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعلق اللہ کی صفات سے ہے جو قدیم ہیں البتہ روح سے اس کا تعلق حادث ہے اور روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور امر اللہ کے علاوہ ہے۔ واللہ أعلم۔
مضمون سے متعلقہ آیات حسب ذیل ہیں۔"اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ بے شک وہ یقیناًان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔"(الصافات:37۔171۔173)اس غلبے سے مراد صرف سیاسی غلبہ ہی نہیں بلکہ اس سے مراد اخلاقی اقدار اور دین کی اصولی باتوں کا غلبہ ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے حق کی مخالفت کی وہ بالآخر تباہ ہو گئیں مگر جن حقائق کو ہزار ہا برس سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہ السلام پیش کرتے رہے وہ پہلے بھی اٹل تھے اور آج بھی اٹل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کلام قدیم ہو گی البتہ مخلوق سے اس کا تعلق حادث ہو گا۔چنانچہ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور کلام زمین و آسمان کی پیدائش سے پہلے کے ہیں جیسا کہ آئندہ احادیث سے اس امر کی مزید وضاحت ہوگی دراصل محدثین کی تائید میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے یہ اور آئندہ ابواب بطور تمہید کے قائم کیے ہیں۔ واللہ اعلم۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ ﷺ کھجور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ آپ چند یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک نے کہا: ان سے روح کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے آپ سے روح کے متعلق پوچھ ہی لیا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جبکہ میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ان سے فرما دیں کہ روح تو میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ پھر ان یہودیوں نے ایک دوسرے سے کہا: ہم نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان سے کچھ نہ پوچھو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس روح کے متعلق سوال کیا تھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ مفسرین میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ارواح بنی آدم ہیں۔ جب وہ (روح) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے عذاب کیوں ہوتا ہے؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی جسامت تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ جان ہے جو ہر جاندار کے جسم میں ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ رہتا ہے اور اس کے نکلنے سے وہ مر جاتا ہے انسان نے اس کے متعلق بہت تحقیق کی ہے تاہم ابھی تک اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ 2۔واضح رہے کہ قرآن نے اسے نفس سے تعبیر کیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہا جاتا ہے۔ آیت کریمہ میں "أمر" سے مراد مامور ہے۔ لغت عرب میں یہ استعمال عام ہے۔ 3۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پائی گئی ہے۔ امر اللہ روح نہیں بلکہ روح اس کی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم روح سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعلق اللہ کی صفات سے ہے جو قدیم ہیں البتہ روح سے اس کا تعلق حادث ہے اور روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور امر اللہ کے علاوہ ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع بن جراح نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا اور آپ ﷺ ایک کھجور کی چھڑی پر ٹیکا لیتے جاتے تھے۔ پھر آپ یہودیوں کی ایک جماعت سے گزرے تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ ان سے روح کے متعلق پوچھو اور بعض نے کہا کہ اس کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے پوچھا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ چنانچہ آپ نے یہ آیت پڑھی (قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا)اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئیے کہ روح میرے رب کے امر «مٰن» سے اور تمہیں علم بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔ اس پر بعض یہودیوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نے کہا نہ تھا کہ مت پوچھو۔
حدیث حاشیہ:
(تفصیل آئندہ آنے والی حدیث میں ملاحظہ ہو)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : While I was walking with Allah's Apostle (ﷺ) in one of the fields of Madinah and he was walking leaning on a stick, he passed a group of Jews. Some of them said to the others, "Ask him (the Prophet) about the spirit." Others said, "Do not ask him." But they asked him and he stood leaning on the stick and I was standing behind him and I thought that he was being divinely inspired. Then he said, "They ask you concerning the spirit say: The spirit, its knowledge is with My Lord. And of knowledge you (O men!) have been given only a little." ...(17.85) On that some of the Jews said to the others, "Didn't we tell you not to ask?"