باب: اس بارے میں کہ تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: What to say after the Takbir)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
754.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نماز کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے کیا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اصول ہے کہ جہاں قوی روایات کی وجہ سے حکم میں اختلاف ہو وہاں اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں لگاتے۔ (2) امام مالک ؒ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنے کے قائل نہیں ہیں، اگر کوئی پڑھ لے تو اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنا سنت ہے۔ امام بخاری کا رجحان امام مالک کے موقف کی طرف ہے، اس لیے آپ نے دونوں قسم کی روایات کو جمع کردیا ہے۔ حدیث انس ؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا آغاز ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا جائے جبکہ اس کے بعد حدیث ابو ہریرہ ؓ کو ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دعائے افتتاح پڑھی جاسکتی ہے۔ (3) اب یہ مسئلہ کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک ؒ کے نزدیک بسم اللہ بآواز بلند یا آہستہ کسی طرح بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ بسم اللہ پڑھی جائے۔ وہ مذکورہ روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ قراءت کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کرنا چاہیے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔ پھر بسم اللہ پڑھنے والوں میں اختلاف ہے کہ اسے آہستہ پڑھنا چاہیے یا اونچی آواز سے، آہستہ پڑھنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی۔ میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:890(399)) امام نووی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’اس شخص کی دلیل جو بسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بآواز بلند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔ (مسندأحمد:179/3) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یہ حضرات آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب ذکرالدلیل علی أن انسَا......:1/250) بعض روایات میں بسم اللہ پڑھنے کی نفی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس نفی کو بآواز بلند پڑھنے پر محمول کیا جائے، یعنی وہ بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:295/2) اور جو حضرات بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:حضرت ابو ہریرہ ؓ نے ایک دفعہ نماز پڑھائی تو پہلے انھوں نے بسم اللہ پڑھی، اس کے بعد سورۂ فاتحہ تلاوت کی، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقینامیں نماز ادا کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ ہوں۔(السنن الکبرٰی للبیھقي، باب افتتاح القراءة في الصلاة….. 2/46) ٭حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز پڑھی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہا ہوں۔ (سنن الدارقطني، باب وجوب قراءة "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" في الصلاة…… 1/307۔ 308) ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے، البتہ پوشیدہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔ ہاں، جن احادیث میں بسم اللہ کا ذکر نہیں انھیں راوی کے عدم علم یا اس کی قراءت کے مخفی ہونے پر محمول کیا جائے گا اور جن روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے انھیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بآواز بلند بھی پڑھتے تھے تاکہ لوگوں کو اس کی مشروعیت کا پتہ چل جائے۔ یاد رہے کہ بسم اللہ، سورۂ فاتحہ کی ایک آیت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:1183)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
735
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
743
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
743
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
743
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نماز کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا اصول ہے کہ جہاں قوی روایات کی وجہ سے حکم میں اختلاف ہو وہاں اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں لگاتے۔ (2) امام مالک ؒ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنے کے قائل نہیں ہیں، اگر کوئی پڑھ لے تو اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنا سنت ہے۔ امام بخاری کا رجحان امام مالک کے موقف کی طرف ہے، اس لیے آپ نے دونوں قسم کی روایات کو جمع کردیا ہے۔ حدیث انس ؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا آغاز ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا جائے جبکہ اس کے بعد حدیث ابو ہریرہ ؓ کو ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دعائے افتتاح پڑھی جاسکتی ہے۔ (3) اب یہ مسئلہ کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک ؒ کے نزدیک بسم اللہ بآواز بلند یا آہستہ کسی طرح بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ بسم اللہ پڑھی جائے۔ وہ مذکورہ روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ قراءت کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کرنا چاہیے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔ پھر بسم اللہ پڑھنے والوں میں اختلاف ہے کہ اسے آہستہ پڑھنا چاہیے یا اونچی آواز سے، آہستہ پڑھنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی۔ میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:890(399)) امام نووی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’اس شخص کی دلیل جو بسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بآواز بلند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔ (مسندأحمد:179/3) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یہ حضرات آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب ذکرالدلیل علی أن انسَا......:1/250) بعض روایات میں بسم اللہ پڑھنے کی نفی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس نفی کو بآواز بلند پڑھنے پر محمول کیا جائے، یعنی وہ بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:295/2) اور جو حضرات بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:حضرت ابو ہریرہ ؓ نے ایک دفعہ نماز پڑھائی تو پہلے انھوں نے بسم اللہ پڑھی، اس کے بعد سورۂ فاتحہ تلاوت کی، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقینامیں نماز ادا کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ ہوں۔(السنن الکبرٰی للبیھقي، باب افتتاح القراءة في الصلاة….. 2/46) ٭حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز پڑھی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہا ہوں۔ (سنن الدارقطني، باب وجوب قراءة "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" في الصلاة…… 1/307۔ 308) ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے، البتہ پوشیدہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔ ہاں، جن احادیث میں بسم اللہ کا ذکر نہیں انھیں راوی کے عدم علم یا اس کی قراءت کے مخفی ہونے پر محمول کیا جائے گا اور جن روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے انھیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بآواز بلند بھی پڑھتے تھے تاکہ لوگوں کو اس کی مشروعیت کا پتہ چل جائے۔ یاد رہے کہ بسم اللہ، سورۂ فاتحہ کی ایک آیت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:1183)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے قتادہ ؓ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر ؓ نماز ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے شروع کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی قرآن کی قرات سورۃ فاتحہ سے شروع کرتے تھے تو یہ منافی نہ ہوگی اس حدیث کے جو آگے آتی ہے۔ جس میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا منقول ہے اور ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ سے سورۃ فاتحہ مراد ہے۔ اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے کیونکہ بسم اللھ سورۃ فاتحہ کی جزو ہے تومقصود یہ ہے کہ بسم اللہ پکارکر نہیں پڑھتے تھے۔ جیسے کہ نسائی اورابن حبان کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ کو پکار کرنہیں پڑھتے تھے۔ روضہ میں ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ پڑھنا چاہئیے۔ جہری نمازوں میں پکار کر اورسری نمازوں میں آہستہ اور جن لوگوں نے بسم اللہ کا نہ سننا نقل کیاہے وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کم سن تھے جیسے انس ؓ اورعبداللہ بن مغفل اوریہ آخری صف میں رہتے ہوں گے، شاید ان کوآواز نہ پہنچی ہوگی اور بسم الله کے جہر میں بہت حدیثیں وارد ہیں۔ گو ان میں کلام بھی ہو مگر اثبات مقدم ہے نفی پر۔ ( وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet, Abu Bakr (RA) and 'Umar used to start the prayer with "Al-hamdu lil-lahi Rabbil-'ala-min (All praises are for Allah the Lord of the Worlds)."