تشریح:
(1) ابو داود کی روایت میں ''مَا تَيَسَّرَ'' کی تفسیر بیان ہوئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:تکبیر تحریمہ کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھ۔ابو داود کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تجھے قرآن یاد ہے تو اس سے کچھ پڑھ، اگر قرآن یاد نہیں تو الحمدلله، الله أكبر اور لا إله إلا الله پڑھتا رہ۔ جب حدیث کے الفاظ کو جمع کیا جاتا ہے تو اس طرح ترتیب بنتی ہے کہ پہلا درجہ سورۂ فاتحہ کا ہے۔ اگر یہ سورت یاد نہیں تو قرآن کریم کی کوئی بھی سورت یا آیت پڑھی جاسکتی ہے۔ اگر بالکل قرآن کریم سے ناواقف ہے تو اللہ کا ذکر اس کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري:315/2) حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:یا رسول اللہ ! میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں کرسکتا، مجھے قراءت کی جگہ کافی ہونے والی کوئی چیز بتادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لو یہ کلمات کہا کرو:(سبحان الله، والحمدلله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم) (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:832) (2) امام بخاری ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے یہ حدیث مسيئ الصلاة کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر ابن حبان نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’نمازی کے لیے ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔‘‘ نماز میں فاتحہ پڑھنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاتحہ کو نماز قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے گا، اسے ضرور ملے گا،چنانچہ جب بندہ کہتا ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔اور جب بندہ کہتا ہے: ﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔اور جب بندہ کہتا ہے : ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے اپنے معاملات میرے سپرد کردیے ہیں۔اور جب بندہ کہتا ہے : ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔پھر جب بندہ کہتا ہے:﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں اسے ضرور دوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)، ومسندأحمد:2/241) آخر میں ہم فاتحہ خلف الامام کے قائلین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کاموقف پیش کرتے ہیں:٭کسی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے سوال کیا کہ میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ سائل نے عرض کیا: اگرچہ آپ قراءت کر رہے ہوں؟فرمایا: ہاں، اگرچہ میں قراءت کررہاہوں۔ (المستدرك للحاکم:1/239) ٭ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔ (المصنف لابن أبي شیبة:1/375) ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ اسے آہستہ اپنے جی میں پڑھو۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)) ٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔(جزءالقراءة، حدیث:57) ٭حضرت انس ؓ بھی امام کے پیچھے قراءت فاتحہ کا حکم دیتے تھے۔(کتاب القراءت للبیھقی،حدیث:231) ٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی قراءت فاتحہ خلف الامام کے قائل اور فاعل تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:2/165) ٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بھی یہی موقف تھا۔حضرت مجاہد انھیں امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا کرتے تھے۔(جزءالقراءۃ، حدیث:60)٭ حضرت ابی بن کعب ؓ بھی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائم وفاعل تھے۔ (جزءالقراءۃ،حدیث:52) نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مشروعیت اس طرح بھی ثابت ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ﴿٨٧﴾) اور ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ " (الحجر87:15) رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود وضاحت فرمائی ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سات باربار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4704) مفسر قرآن حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نماز فرض ہو نفل ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ دہرائی جاتی ہے۔ (تفسیرالطبري:14/39) مذکورہ حدیث وآثار اور تعامل صحابہ کے مقابلے میں فقہائے عراق کا رد عمل بھی ملاحظہ فرمائیں:شیخ الحنفیہ نعمان الوقت شیخ خواہر زادہ فرماتے ہیں کہ اگر مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔معروف حنفی بزرگ عبداللہ البلخی فرماتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کے منہ میں مٹی ڈالی جائے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اس کے دانت توڑ دیے جائیں۔خلاصۂ کیدانی کی مصنف لکھتے ہیں کہ قراءت خلف الامام حرام ہے۔مذکورہ تمام حوالہ جات مولانا عبدالحی لکھنوی کی کتاب امام الکلام سے ماخوذ ہیں۔ در مختار میں منقول ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والا فاسق اور اس کی نماز باطل ہے۔ (در مختار:1/544) مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے صاف صاف اظہار حق کیا ہے، فرماتے ہیں: کسی مرفوع حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں ہے اور مخالفین جو بھی مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں یاوہ بالکل بے اصل ہیں۔ (التعلیق الممجد:1/101)