صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
95. باب: اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو یا نمازی کوئی بری چیز دیکھے یا قبلہ کی دیوار پر تھوک دیکھے (تو التفات میں کوئی قباحت نہیں)۔
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
95. Chapter: Is it permissible to one to look around in Salat (prayer) if something happens to one? Or can one look at something like expectoration in the directn of the Qiblah?
باب: اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو یا نمازی کوئی بری چیز دیکھے یا قبلہ کی دیوار پر تھوک دیکھے (تو التفات میں کوئی قباحت نہیں)۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Is it permissible to one to look around in Salat (prayer) if something happens to one? Or can one look at something like expectoration in the directn of the Qiblah?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سہل بن سعد نے کہا ابوبکر ؓ نے التفات کیا تو آنحضرت ﷺکو دیکھا
765.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک دن مسلمان نماز فجر میں مشغول تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ سامنے آ گئے۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف دیکھا جبکہ اس وقت وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ ﷺ خوشی کے باعث مسکرانے لگے۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنے لگے تاکہ خود صف میں شامل ہو جائیں کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ آپ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں نے قصد کر لیا کہ مارے خوشی کے اپنی نماز توڑ دیں لیکن آپ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ تم اپنی نماز کو پورا کرو، پھر آپ نے پردہ نیچے کر دیا اور اسی دن کے آخری حصے میں آپ کی وفات ہو گئی۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نمازکی حالت میں اگر کوئی نئی خاص بات آجائے تو دوران نماز میں اس کی رعایت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسا عمل نہ کرنا پڑے جو نماز کے منافی ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو الٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئے تاکہ خود صف میں شامل ہوجائیں اور آپ کے لیے امامت کی جگہ خالی کردیں، اس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی التفات کرکے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا،پھر انھوں نے آپ کے اشارے کو بھی ملاحظہ کیا۔ (فتح الباري:306/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
746
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
754
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
754
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
754
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ التفات کے متعلق استثنائی صورتیں بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی ہنگامی ضرورت اور وقتی حاجت کے پیش نظر التفات ہوتو وہ نماز کے لیے خرابی کا باعث نہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دوران نماز میں التفات کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نماز دوبارہ پڑھنے کے متعلق نہیں کہا بلکہ انھیں اپنی نماز جاری رکھنے کی تلقین فرمائی کیونکہ یہ التفات ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا۔(فتح الباری:2/303) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعلیق کو اپنی سند سے متصل بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری،الاذان،حدیث:684)
اور سہل بن سعد نے کہا ابوبکر ؓ نے التفات کیا تو آنحضرت ﷺکو دیکھا
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک دن مسلمان نماز فجر میں مشغول تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ سامنے آ گئے۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف دیکھا جبکہ اس وقت وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ ﷺ خوشی کے باعث مسکرانے لگے۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنے لگے تاکہ خود صف میں شامل ہو جائیں کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ آپ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں نے قصد کر لیا کہ مارے خوشی کے اپنی نماز توڑ دیں لیکن آپ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ تم اپنی نماز کو پورا کرو، پھر آپ نے پردہ نیچے کر دیا اور اسی دن کے آخری حصے میں آپ کی وفات ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نمازکی حالت میں اگر کوئی نئی خاص بات آجائے تو دوران نماز میں اس کی رعایت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسا عمل نہ کرنا پڑے جو نماز کے منافی ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو الٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئے تاکہ خود صف میں شامل ہوجائیں اور آپ کے لیے امامت کی جگہ خالی کردیں، اس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی التفات کرکے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا،پھر انھوں نے آپ کے اشارے کو بھی ملاحظہ کیا۔ (فتح الباري:306/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت سہل ؓ بیان کرتے ہیں کہ (نماز میں) حضرت ابوبکر ؓ ادھر ادھر متوجہ ہوئے تو انہوں نے نبی ﷺکو دیکھا۔
وضاحت: امام بخاریالتفات کے متعلق استثنائی صورتیں بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی ہنگامی ضرورت اور وقتی حاجت کے پیش نظر التفات ہو تو وہ نماز کے لیے خرابی کا باعث نہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے دوران نماز میں التفات کیا اور رسول اللہﷺکو دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کے متعلق نہیں کہا بلکہ انہیں اپنی نماز جاری رکھنے کی تلقین فرمائی کیونکہ یہ التفات ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا۔ (فتح الباری: 2/303) امام بخاری نے اس تعلیق کو اپنی سند سے متصل بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، الاذان،
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ (حضور ﷺ کے مرض وفات میں) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ سے پردہ ہٹایا۔ آپ نے صحابہ کو دیکھا۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ (خوشی سے) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر ؓ نے (آپ کو دیکھ کر) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں۔ آپ نے سمجھا کہ آنحضور ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ صحابہ (آپ کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا) نماز ہی چھوڑ دیں گے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا۔ اسی دن چاشت کو آپ نے وفات پائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یوں نکلا کہ صحابہ نے عین نماز میں التفات کیا۔ کیونکہ اگروہ التفات نہ کرتے تو آپ کا پردہ اٹھانا کیونکر دیکھتے اور ان کا اشارہ کیسے سمجھتے۔ بلکہ خوشی کے مارے حال یہ ہوا کہ قریب تھا کہ وہ نماز کو بھول جائیں اور آنحضرت ﷺ کے دیدار کے لیے دوڑیں۔ اسی حالت کو ان لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ قصد کیا کہ وہ فتنے میں پڑ جائیں۔ بہرحال یہ مخصوص حالات ہیں۔ ورنہ عام طور پر نماز میں التفات جائز نہیں، جیسا کہ حدیث سابقہ میں گزرا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے: ﴿وقوموا للہ قٰنتین﴾(البقرة: 238)یعنی نماز میں اللہ کے لیے دلی توجہ کے ساتھ فرماں بردار بندے بن کر کھڑے ہوا کرو۔ نماز کی روح یہی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر یقین کر کے اس سے دل لگایا جائے۔ آیت شریفہ ﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾(المومنون:2) کا یہی تقاضا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): While the Muslims were offering the Fajr prayer, Allah's Apostle (ﷺ) suddenly appeared before them by living the curtain of the dwelling place of 'Aisha (RA), looked towards the Muslims who were standing in rows. He smiled with pleasure. Abu Bakr (RA) started retreating to join the row on the assumption that the Prophet (ﷺ) wanted to come out for the prayer. The Muslims intended to leave the prayer (and were on the verge of being put to trial), but the Prophet (ﷺ) beckoned them to complete their prayer and then he let the curtain fall. He died in the last hours of that day.