تشریح:
(1) پہلی دو رکعات میں قیام کے وقت سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت کو بھی ملایا جاتا ہے، اس لیے دوسری دو رکعات کے مقابلے میں پہلی دو رکعات طویل ہوں گی۔ دیگر روایات میں صلاۃ عشاء یا پچھلے وقت کی دو نمازوں (ظہر وعصر) کے الفاظ ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھی روایات کی طرف اشارہ کرکے اپنے مدعیٰ کو ثابت کیا ہے یا پھر ظہر اور عصر کے ساتھ عشاء کا الحاق کرکے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے، کیونکہ ان تینوں نمازوں کی چار چار رکعات ہوتی ہیں۔ (فتح الباري:325/2)
(2) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور ظہر وعصر کی پہلی رکعت میں طوالت اختیار کرتے تھے۔ حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں: ہمارے گمان کے مطابق رسول اللہ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو پہلی رکعت مل جائے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:800،799) اب بھی لوگوں کے لیے یہ سہولت ہونی چاہیے، یعنی اگر انھیں پہلی رکعت ملنے کی توقع ہوتو پہلی رکعت کو طویل کرنا بہتر ہے۔