تشریح:
حدیث کے ظاہری الفاظ کا تقاضا ہے کہ ہرنماز کی پہلی رکعت کو کچھ لمبا کیا جائے تاکہ لوگوں کو شمولیت کا موقع مل سکے، امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ صرف فجر کی نماز میں پہلی رکعت کو لمبا کیا جائے، دوسری نمازوں میں ایسا نہ کیا جائے۔ امام بیہقی ؒ نے تطبیق کی صورت بیان کی ہے کہ اگر کسی کا انتظار ہوتو پہلی رکعت کو لمبا کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر پہلی دونوں رکعات برابر ہونی چاہییں، چنانچہ حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ میں ہر نماز کی پہلی رکعت کے متعلق یہ پسند کرتا ہوں کہ امام اسے طویل کرے تاکہ لوگوں کی شمولیت زیادہ ہو۔ اور جب میں اکیلا نماز پڑھوں تو پہلی دونوں رکعات کے برابر ہونے کو پسند کرتا ہوں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ صبح کی نماز میں تو پہلی رکعت طویل ہونی چاہیے اور دیگر نمازوں میں اگر لوگوں کے شامل ہونے کی امید ہوتو پہلی کو طویل کیا جاسکتا ہے، بصورت دیگر ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نماز صبح میں پہلی رکعت طویل کرنے کی یہ وجہ ہے کہ نیند اور آرام سے بیدار ہونا کچھ مشکل ہوتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے پہلی رکعت کو طویل کیا جائے۔ واللہ أعلم (فتح الباري:239/2)