باب:اس بارے میں کہ بچے کا(حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: At what age may a youth be listened to (i.e. quotation of the Hadith from a boy be acceptable))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
78.
حضرت محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے (اب تک) نبی ﷺ کی ایک کلی یاد ہے جو آپ نے ایک ڈول سے پانی لے کر میرے چہرے پر کی تھی۔ اس وقت میں پانچ برس کا تھا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سمجھدار بچے مجلس علم میں حاضر ہو سکتے ہیں اور اہل علم ان سے خوش طبعی بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ لعاب دہن ناپاک نہیں ہے۔ (فتح الباري: 227/1) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ نقل نہیں فرمایا کہ انھوں نے جنگ احزاب کے موقع پر اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ وہ بڑی تیزی سے بنو قریظہ کی طرف جا رہے ہیں اور اس وقت ان کی عمر صرف تین سال کی تھی۔ نقل نہ کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس واقعہ سے کوئی مسئلہ یا سنت ثابت نہیں ہوتی۔ جن روایات سے کوئی مسئلہ ثابت ہوتا تھا انھیں نقل فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 227/1) البتہ اس واقعے کو مناقب زبیر میں ذکرضرور کیا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبيﷺ، حدیث: 3720)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
77
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
77
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
77
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
77
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
سماع حدیث کے لیے بلوغت شرط نہیں البتہ اداحدیث کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے۔
حضرت محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے (اب تک) نبی ﷺ کی ایک کلی یاد ہے جو آپ نے ایک ڈول سے پانی لے کر میرے چہرے پر کی تھی۔ اس وقت میں پانچ برس کا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سمجھدار بچے مجلس علم میں حاضر ہو سکتے ہیں اور اہل علم ان سے خوش طبعی بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ لعاب دہن ناپاک نہیں ہے۔ (فتح الباري: 227/1) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ نقل نہیں فرمایا کہ انھوں نے جنگ احزاب کے موقع پر اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ وہ بڑی تیزی سے بنو قریظہ کی طرف جا رہے ہیں اور اس وقت ان کی عمر صرف تین سال کی تھی۔ نقل نہ کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس واقعہ سے کوئی مسئلہ یا سنت ثابت نہیں ہوتی۔ جن روایات سے کوئی مسئلہ ثابت ہوتا تھا انھیں نقل فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 227/1) البتہ اس واقعے کو مناقب زبیر میں ذکرضرور کیا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبيﷺ، حدیث: 3720)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔
حدیث حاشیہ:
بعض بچے ایسے بھی ذہین، ذکی، فہیم ہوتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر ہی میں ان کا بلوغ قابل اعتماد ہو جاتا ہے۔ یہاں ایسا ہی بچہ مراد ہے اس سے ثابت ہوا کہ لڑکا یا گدھا اگر نمازی کے آگے سے نکل جائے تونماز فاسد نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ دلیل لی ہے کہ لڑکے کی روایت صحیح ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت تک لڑکے ہی تھے۔ مگرآپ کی روایت کو مانا گیا ہے دوسری روایت میں محمود کا ذکر ہے جو بہت ہی کمسن تھے چونکہ ان کو یہ بات یادرہی توان کی روایت معتبر ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلی شفقت اور برکت کے لیے ڈالی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mahmud bin Rabi'ah (RA): When I was a boy of five, I remember, the Prophet (ﷺ) took water from a bucket (used for getting water out of a well) with his mouth and threw it on my face.