Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To recite aloud in the Fajr (early morning) prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ام سلمہ ؓنے کہا کہ میں نے لوگوں کے پیچھے ہو کر کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ ( نماز میں ) سورہ طور پڑھ رہے تھے۔
785.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کو جس نماز میں جہر کا حکم ہوا آپ نے اس میں جہر کیا اور جس نماز میں آہستہ پڑھنے کا حکم ہوا وہاں آہستہ پڑھا اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں اور بلاشبہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے، یعنی ان کی پیروی کرنا ہی اچھا ہے۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ سری نمازوں میں قراءت کی نفی کرتے تھے، چنانچہ حدیث میں ہےکہ حضرت ابن عباس کے چند شاگرد ان کے پاس آئے۔ انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انھوں نے دوبارہ عرض کیا: شاید آپ آہستہ اپنے جی میں پڑھتے ہوں؟ فرمایا: یہ پہلے موقف سے بھی گھٹیا ہے۔ آپ تو عبد مامور تھے اور اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کے پابند تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:808) بعض دفعہ آپ قراءت کے متعلق شکوک وشبہات کا اظہار کرتے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے پتہ نہیں کہ رسول الله ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھا کرتےتھے یا نہیں؟ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:809) اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ قراءت کے متعلق شک میں مبتلا تھے، حالانکہ حضرت خباب بن ارت اور حضرت ابو قتادہ ؓ نے ظہر اور عصر کی نماز میں قراءت کرنا نقل فرمایا ہے، اس لیے قراءت کا اثبات اس کی نفی پر مقدم ہے۔ شاید امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت حضرت ابن عباس ؓ کے اختیار کردہ موقف کے جواب میں پیش کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے نمونہ ہیں تو آپ سے تو قراءت کرنا ثابت ہے، اس لیے ہمیں بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے نماز ظہر اور عصر میں قراءت کرنی چاہیے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ بھی ان نمازوں میں قراءت کے قائل تھے۔ جیسا کہ ابو العالیہ ؒ کہتے ہیں: میں نے ان سے سوال کیا کہ آیا مجھے نماز ظہر اور نماز عصر میں قراءت کرنی چاہیے؟تو انھوں نے فرمایا: قرآن تیرا امام ہے، اس سے تھوڑا بہت ضرور پڑھنا چاہیے۔ (فتح الباري:330/2) (2) علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نماز کے متعلق جملہ کیفیات وحالات کو قرآن میں بیان کردیتا اور اللہ تعالیٰ نے اسے سہو و نسیان سے نظر انداز نہیں کیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بیان پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ قرآن کا بیان آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا اور آپ نے اپنے عمل سے اسے بیان کردیا ہے، اس لیے قرآن کے اجمال کی وضاحت کے لیے رسول اللہ ﷺ کے افعال کی پیروی ضروری ہے۔ (فتح الباري:330/2) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے قرآن کریم نے سورۂ قیامہ میں "بیان" سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو دینی احکام میں صرف قرآن پر اعتماد کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا بیان، یعنی احادیث مبارکہ ان کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں بلکہ یہ حضرات ان احادیث کو عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔ أعاذنا الله من الزيغ والضلال
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
765
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
774
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
774
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
774
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس تعلیق کو امام بخاری رحمہ اللہ نے موصولا بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری،الحج،حدیث:1619) اس روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو کیونکہ دوران نماز میں نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے۔ چونکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں سورۂ والطور پڑھتے سنا، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مدعا ثابت ہوگیا۔
اور ام سلمہ ؓنے کہا کہ میں نے لوگوں کے پیچھے ہو کر کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ ( نماز میں ) سورہ طور پڑھ رہے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کو جس نماز میں جہر کا حکم ہوا آپ نے اس میں جہر کیا اور جس نماز میں آہستہ پڑھنے کا حکم ہوا وہاں آہستہ پڑھا اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں اور بلاشبہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے، یعنی ان کی پیروی کرنا ہی اچھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عباس ؓ سری نمازوں میں قراءت کی نفی کرتے تھے، چنانچہ حدیث میں ہےکہ حضرت ابن عباس کے چند شاگرد ان کے پاس آئے۔ انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انھوں نے دوبارہ عرض کیا: شاید آپ آہستہ اپنے جی میں پڑھتے ہوں؟ فرمایا: یہ پہلے موقف سے بھی گھٹیا ہے۔ آپ تو عبد مامور تھے اور اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کے پابند تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:808) بعض دفعہ آپ قراءت کے متعلق شکوک وشبہات کا اظہار کرتے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے پتہ نہیں کہ رسول الله ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھا کرتےتھے یا نہیں؟ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:809) اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ قراءت کے متعلق شک میں مبتلا تھے، حالانکہ حضرت خباب بن ارت اور حضرت ابو قتادہ ؓ نے ظہر اور عصر کی نماز میں قراءت کرنا نقل فرمایا ہے، اس لیے قراءت کا اثبات اس کی نفی پر مقدم ہے۔ شاید امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت حضرت ابن عباس ؓ کے اختیار کردہ موقف کے جواب میں پیش کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے نمونہ ہیں تو آپ سے تو قراءت کرنا ثابت ہے، اس لیے ہمیں بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے نماز ظہر اور عصر میں قراءت کرنی چاہیے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ بھی ان نمازوں میں قراءت کے قائل تھے۔ جیسا کہ ابو العالیہ ؒ کہتے ہیں: میں نے ان سے سوال کیا کہ آیا مجھے نماز ظہر اور نماز عصر میں قراءت کرنی چاہیے؟تو انھوں نے فرمایا: قرآن تیرا امام ہے، اس سے تھوڑا بہت ضرور پڑھنا چاہیے۔ (فتح الباري:330/2) (2) علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نماز کے متعلق جملہ کیفیات وحالات کو قرآن میں بیان کردیتا اور اللہ تعالیٰ نے اسے سہو و نسیان سے نظر انداز نہیں کیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بیان پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ قرآن کا بیان آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا اور آپ نے اپنے عمل سے اسے بیان کردیا ہے، اس لیے قرآن کے اجمال کی وضاحت کے لیے رسول اللہ ﷺ کے افعال کی پیروی ضروری ہے۔ (فتح الباري:330/2) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے قرآن کریم نے سورۂ قیامہ میں "بیان" سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو دینی احکام میں صرف قرآن پر اعتماد کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا بیان، یعنی احادیث مبارکہ ان کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں بلکہ یہ حضرات ان احادیث کو عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔ أعاذنا الله من الزيغ والضلال
ترجمۃ الباب:
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں لوگوں کے پیچھے سے طواف کر رہی تھی جبکہ نبی ﷺ نماز پڑھا رہے تھے اور نماز میں سورہ "الطور" کی تلاوت کر رہے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس ؓ سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ کو جن نمازوں میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کا حکم ہوا تھا۔ آپ نے ان میں بلند آواز سے پڑھا اور جن میں آہستہ سے پڑھنے کا حکم ہوا تھا ان میں آپ نے آہستہ سے پڑھا اور تیرا رب بھولنے والا نہیں اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) recited aloud in the prayers in which he was ordered to do so and quietly in the prayers in which he was ordered to do so. "And your Lord is not forgetful." "Verily there was a good example for you in the ways of the Prophet (ﷺ)."