Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
122. Chapter: And what is said regarding the limit of the completion of bowing and of keeping the back straight and the calmness with which it is performed
باب: رکوع پوری طرح کرنے کی اور اس پر اعتدال و طمانیت کی (حد کیا ہے)
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: And what is said regarding the limit of the completion of bowing and of keeping the back straight and the calmness with which it is performed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
804.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا رکوع، سجدہ، سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے، البتہ قیام اور تشہد کچھ طویل ہوتے تھے۔
تشریح:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اعتدالِ ارکان کی تین اقسام ہیں: ٭ قیام اور تشہد میں ٹھہرنا۔ یہ مناسب حد تک طویل ہونا چاہیے کہ نمازی کو دیکھ کر کہا جا سکے کہ وہ کسی خاص چیز میں مصروف ہے۔ ٭ رکوع و سجود میں ٹھہرنا۔ یہ پہلی قسم سے کم ہونا چاہیے، البتہ حالت انتقال سے زیادہ توقف معلوم ہو۔ ٭ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنا۔ یہ ہلکا ہونا چاہیے ایسا معلوم ہو کہ حالت انتقال میں ہے۔ (2) شاہ صاحب کی مذکورہ تفصیل احادیث میں ذکر کردہ تفصیل کے خلاف ہے۔ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنے کے متعلق حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو قیام فرماتے، اتنی دیر کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:821) اسی طرح رکوع و سجود کی طوالت کا ذکر بھی احادیث میں آیا ہے، البتہ قیام میں تنوع ہوتا تھا۔ بعض اوقات دوران سفر میں آپ نے صبح کی نماز میں معوذتین بھی پڑھی ہیں۔ اور بعض اوقات طویل قراءت شروع فرمائی لیکن کسی بچے کے روزے کی آواز سنائی دی تو رکوع کر دیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام و قعود اور مذکورہ چاروں چیزیں برابر ہوتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رواۃ حدیث کا تصرف ہے کیونکہ تسویہ صرف چار ہی میں ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس مقام پر ایک اعتراض ہے کہ مذکورہ روایت سے عنوان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ عنوان اتمام رکوع کی حد بیان کرنا ہے جبکہ حدیث میں ایک دوسرے کی مساوات کا ذکر ہے، اس مساوات سے اعتدال ثابت نہیں ہوتا؟ اس کا جواب علامہ سندھی نے یہ دیا ہے کہ بعض امور کا حکم خارج سے معلوم ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی اعتدال کی مقدار خارج سے معلوم ہو گی کیونکہ دیگر روایات میں رکوع اور سجود کی تسبیحات کا ذکر ہے جن سے اعتدال کی مقدار کا پتہ چلتا ہے، پھر ان امور کا ایک دوسرے کے مساوی ہونا بھی ایک حد ہے۔ (4) حافظ ابن حجر ؒ عنوان سے حدیث کی مطابقت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث سے رکوع، سجدہ، قومہ اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مساوات ثابت ہوتی ہے اور صحیح مسلم کی کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قومہ طویل ہوتا تھا تو اس سے تمام ارکان کا طویل ہونا ثابت ہو گیا کیونکہ ان میں مساوات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:357/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
783
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
792
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
792
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
792
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
یہ پہلے عنوان کا تکملہ ہے۔ اس میں اعتدال کا طریقہ بتایا تھا کہ سر اس قدر جھکایا جائے کہ پیٹھ کے برابر ہو جائے اور اس عنوان میں اتمام رکوع کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا رکوع، سجدہ، سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے، البتہ قیام اور تشہد کچھ طویل ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اعتدالِ ارکان کی تین اقسام ہیں: ٭ قیام اور تشہد میں ٹھہرنا۔ یہ مناسب حد تک طویل ہونا چاہیے کہ نمازی کو دیکھ کر کہا جا سکے کہ وہ کسی خاص چیز میں مصروف ہے۔ ٭ رکوع و سجود میں ٹھہرنا۔ یہ پہلی قسم سے کم ہونا چاہیے، البتہ حالت انتقال سے زیادہ توقف معلوم ہو۔ ٭ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنا۔ یہ ہلکا ہونا چاہیے ایسا معلوم ہو کہ حالت انتقال میں ہے۔ (2) شاہ صاحب کی مذکورہ تفصیل احادیث میں ذکر کردہ تفصیل کے خلاف ہے۔ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنے کے متعلق حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو قیام فرماتے، اتنی دیر کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:821) اسی طرح رکوع و سجود کی طوالت کا ذکر بھی احادیث میں آیا ہے، البتہ قیام میں تنوع ہوتا تھا۔ بعض اوقات دوران سفر میں آپ نے صبح کی نماز میں معوذتین بھی پڑھی ہیں۔ اور بعض اوقات طویل قراءت شروع فرمائی لیکن کسی بچے کے روزے کی آواز سنائی دی تو رکوع کر دیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام و قعود اور مذکورہ چاروں چیزیں برابر ہوتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رواۃ حدیث کا تصرف ہے کیونکہ تسویہ صرف چار ہی میں ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس مقام پر ایک اعتراض ہے کہ مذکورہ روایت سے عنوان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ عنوان اتمام رکوع کی حد بیان کرنا ہے جبکہ حدیث میں ایک دوسرے کی مساوات کا ذکر ہے، اس مساوات سے اعتدال ثابت نہیں ہوتا؟ اس کا جواب علامہ سندھی نے یہ دیا ہے کہ بعض امور کا حکم خارج سے معلوم ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی اعتدال کی مقدار خارج سے معلوم ہو گی کیونکہ دیگر روایات میں رکوع اور سجود کی تسبیحات کا ذکر ہے جن سے اعتدال کی مقدار کا پتہ چلتا ہے، پھر ان امور کا ایک دوسرے کے مساوی ہونا بھی ایک حد ہے۔ (4) حافظ ابن حجر ؒ عنوان سے حدیث کی مطابقت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث سے رکوع، سجدہ، قومہ اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مساوات ثابت ہوتی ہے اور صحیح مسلم کی کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قومہ طویل ہوتا تھا تو اس سے تمام ارکان کا طویل ہونا ثابت ہو گیا کیونکہ ان میں مساوات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ (فتح الباري:357/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حکم نے ابن ابی لیلیٰ سے خبر دی، انہوں نے براء بن عازب ؓ سے، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوائے قیام اور تشہد کے قعود کے۔
حدیث حاشیہ:
قیام سے مراد قرات کا قیام ہے اور تشہد کا قعود، لیکن باقی چار چیزیں یعنی رکوع اور سجدہ اور دونوں سجدوں کے بیچ میں قعدہ اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب قریب قریب برابر ہوتے۔ حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ رکوع سے سر اٹھا کر اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا آپ بھول گئے ہیں۔ حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ اس سے رکوع میں دیر تک ٹھہرنا ثابت ہوتا ہے۔ تو باب کا ایک جزو یعنی اطمینان اس سے نکل آیا اور اعتدال یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا وہ بھی اس روایت سے ثابت ہوچکا ہے۔ حافظ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بعض طریقوں میں جن کو مسلم نے نکالا ہے اعتدال لمبا کرنے کا ذکر ہے تو اس سے تمام ارکان کا لمبا کرنا ثابت ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA): The bowing, the prostration the sitting in between the two prostrations and the standing after the bowing of the Prophet (ﷺ) but not Qiyam (standing in the prayer) and Qu'ud (sitting in the prayer) used to be approximately equal (in duration).