تشریح:
(1) اس طریقۂ نماز کو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ قرار دیا ہے بلکہ قبل ازیں ایک حدیث میں بعینہٖ اس کیفیت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف صراحت کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے کہ خود آپ نے اس انداز سے نماز ادا کی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:789) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: يهوي بالتكبير حين مسجد جبکہ روایت کے الفاظ اس کے برعکس ہیں، یعنی يكبر حين يهوي ساجدا، چونکہ یہاں سے سجدے کا بیان شروع ہوتا ہے اور امام بخاری ؒ نے اللہ أکبر کہنے اور سجدے کے لیے جھکنے کو لازم ملزوم قرار دیا ہے، یعنی اللہ أکبر کو سجدے کے لیے جھکتے ہی شروع کر دیا جائے، پھر اسے پوری حرکت انتقال پر پھیلا دیا جائے جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے: اللہ أکبر جھکنے کے ساتھ اور جھکنا اللہ أکبر کے ساتھ ہو، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اللہ أکبر جھکنے کے ساتھ ساتھ ہو۔ اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
(2) امام بخاری ؒ نے اکمال و تکمیل کے پیش نظر دوسری حدیث ذکر کی ہے۔ باب کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت کا محل رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے، نیز نماز میں کسی کا نام لے کر دعا یا بددعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی جیسا کہ بعض فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:377/2) اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم آئندہ حدیث: (4560) میں بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔