قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابٌ: يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ نَافِعٌ: «كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَضَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ»

804.  قَالاَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ وَأَهْلُ المَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ ( سجدہ کرتے وقت ) پہلے ہاتھ زمین پر ٹیکتے، پھر گھٹنے ٹیکتے۔اس تعلیق کو ابن خزیمہ اور طحاوی نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ امام مالک کا یہی قول ہے۔ لیکن باقی تینوں اماموں نے یہ کہاہے کہ پہلے گھٹنے ٹیکے پھر ہاتھ زمین پر رکھے۔ نووی نے کہا دلیل کی رو سے دونوں مذہب برابر ہیں اور اسی لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے گھٹنے پہلے رکھے چاہے ہاتھ۔ اور ابن قیم نے وائل بن حجر کی حدیث کو ترجیح دی ہے، جس میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )درست یہ ہے کہ حدیث ابوہریرہ راجح اور اصح ہے جو مسلم میں موجود ہے اور اس میں ہاتھ پہلے اور گھٹنے بعد میں ٹیکنے کا مسئلہ بیان ہے۔

804.

ان دونوں (ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہتے اور کچھ لوگوں کے لیے ان کا نام لے کر دعا کرتے ہوئے فرماتے: ’’اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاس بن ابو ربیعہ اور ناتواں مسلمانوں کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے عہد میں قحط پڑا تھا۔‘‘ اس وقت اہل مشرق سے قبیلہ مضر کے لوگ آپ کے دشمن تھے۔