تشریح:
(1) اس روایت کا تقاضا ہے کہ امام کے سجدے کے وقت ہی مقتدی کا سجدہ ہونا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کا سجدہ جھکتے وقت اللہ أکبر کہتے ہوئے ہوتا تھا۔ حدیث کی مطابقت بھی بایں طور پر ہی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ سجدے کے لیے جھکنے کی دونوں صفات ہیں: صفت فعلی اور صفت قولی۔ اس اعتبار سے مذکورہ حدیث سجدے کے لیے جھکنے کی دو صفات پر دلالت کرتی ہے۔ (عمدة القاري:543/4) واللہ أعلم۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں رہتے ہوئے اس وقت سجدے کے لیے جھکتے تھے جب آپ اپنا سر مبارک زمین پر رکھ دیتے تھے جیسا کہ صراحت کے ساتھ حدیث میں اس کا ذکر ہے، اس لیے مقتدی کو سجدہ کرتے وقت جھکنے کے ساتھ ساتھ اللہ أکبر کہتے ہوئے اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھنا ہو گا۔
(2) امام بخاری ؒ نے متن حدیث ختم ہونے کے بعد كذا جاء به معمر سے تین ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق سند حدیث یا بیان روایت سے ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ یہ حضرت سفیان بن عیینہ کا مقولہ ہے۔ انہوں نے اپنے شاگرد علی بن عبداللہ المدینی سے دریافت کیا کہ جیسے میں نے حدیث بیان کی ہے حضرت معمر بن راشد نے بھی اسی طرح بیان کی تھی؟ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے جواب میں ہاں کہا۔ حضرت سفیان نے علی بن مدینی سے یہ اس لیے پوچھا کہ جس طرح وہ سفیان کے شاگرد ہیں اسی طرح معمر کے بھی شاگرد ہیں۔ اس کے بعد حضرت سفیان نے حضرت معمر کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے خواب یاد رکھا ہے۔ ٭ امام زہری کے بعض شاگرد، مثلاً: لیث وغیرہ ربنا لك الحمد یا اللهم ربنا لك الحمد ذکر کرتے تھے، یعنی "واؤ" کا ذکر نہیں کرتے جیسا کہ حدیث: 733 میں گزرا ہے۔ یہ بات حضرت سفیان بن عیینہ نے بطور تنبیہ فرمائی ہے۔ ٭ سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ امام زہری سے شقه الأيمن، کے بجائے ساقه الأيمن نقل کرنے لگا، جبکہ میں خود اپنے شیخ کے پاس تھا تو انہوں نے مذکورہ الفاظ کب اور کیسے سنے ہیں؟ یہ اس صورت میں ہے جب عنده میں ضمیر کا مرجع امام زہری ہوں۔ اگر اس کا مرجع ابن جریج ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تو ابن جریج کے ساتھ رہا ہوں اور ان سے جدا نہیں ہوا تو انہوں نے کب سنے ہیں؟ اس طرح کہنے سے یہ احتمال ختم ہو گیا کہ شاید انہوں نے بعد میں امام زہری سے پوچھ لیا ہو، تاہم پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ (عمدة القاري:544/4) واللہ أعلم۔