Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
123. Chapter: The order of the Prophet (pbuh) to a person who did not perform his bowing perfectly that he should repeat his Salat (prayer)
باب: نبی کریم ﷺکا اس شخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا تھا۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The order of the Prophet (pbuh) to a person who did not perform his bowing perfectly that he should repeat his Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
805.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک اور آدمی بھی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے سلام عرض کیا۔ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’واپس جا، نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اس نے پھر نماز پڑھی، واپس آیا اور نبی ﷺ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’جا، نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ بہرحال ایسا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ بالآخر اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ آپ مجھے نماز کی تعلیم دیں، (اس کے بعد) آپ نے فرمایا: ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو میسر ہو اسے پڑھو، پھر رکوع کرو۔ جب اطمینان سے رکوع کر لو تو سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد سجدہ کرو۔ جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرو تاآنکہ سجدے میں تجھے اطمینان ہو جائے۔ پھر اس طرح اپنی ساری نماز میں کرو۔‘‘
تشریح:
(1) محدثین نے اس حدیث کو "حديث مُسيئ الصلاة" کا نام دیا ہے۔ اور اس سے بکثرت مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو بار بار نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کا یہی قصور تھا کہ وہ رکوع و سجود ٹھیک طور پر ادا نہیں کرتا تھا۔ اس سے پہلے حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک حدیث گزر چکی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر رہا تھا تو فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو دین فطرت کے خلاف مرے گا جس دین پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور فرمایا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:78/2(طبع مکتبة الرشد)) (2) اس حدیث میں ان امور کی نشاندہی نہیں کی گئی جن میں کوتاہی کی وجہ سے اسے دوبارہ سہ بارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا لیکن اس واقعے کو ابن ابی شیبہ نے حضرت رفاعہ بن رافع کی روایت سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ہلکی سی نماز پڑھی اور اس میں رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:791) امام بخاری ؒ نے عنوان کے ذریعے سے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سنن نسائی میں ہے کہ اس نے دو رکعت ادا کی تھیں۔ ممکن ہے کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھی ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے سورۂ فاتحہ پڑھ، پھر قرآن سے جو تجھے میسر ہو اسے تلاوت کر۔‘‘(مسند أحمد:340/4) اس تفصلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:2/364،360)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
784
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
793
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
793
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
793
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کی تشریح کی ہے کیونکہ اس میں نماز دوبارہ پڑھنے کی وجہ بیان نہیں ہوئی تھی۔ اس عنوان میں اس وجہ کو بیان کیا گیا ہے کہ اس نے رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کیا تھا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک اور آدمی بھی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے سلام عرض کیا۔ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’واپس جا، نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اس نے پھر نماز پڑھی، واپس آیا اور نبی ﷺ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’جا، نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ بہرحال ایسا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ بالآخر اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ آپ مجھے نماز کی تعلیم دیں، (اس کے بعد) آپ نے فرمایا: ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو میسر ہو اسے پڑھو، پھر رکوع کرو۔ جب اطمینان سے رکوع کر لو تو سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد سجدہ کرو۔ جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرو تاآنکہ سجدے میں تجھے اطمینان ہو جائے۔ پھر اس طرح اپنی ساری نماز میں کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) محدثین نے اس حدیث کو "حديث مُسيئ الصلاة" کا نام دیا ہے۔ اور اس سے بکثرت مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو بار بار نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کا یہی قصور تھا کہ وہ رکوع و سجود ٹھیک طور پر ادا نہیں کرتا تھا۔ اس سے پہلے حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک حدیث گزر چکی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر رہا تھا تو فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو دین فطرت کے خلاف مرے گا جس دین پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور فرمایا ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:78/2(طبع مکتبة الرشد)) (2) اس حدیث میں ان امور کی نشاندہی نہیں کی گئی جن میں کوتاہی کی وجہ سے اسے دوبارہ سہ بارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا لیکن اس واقعے کو ابن ابی شیبہ نے حضرت رفاعہ بن رافع کی روایت سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ہلکی سی نماز پڑھی اور اس میں رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:791) امام بخاری ؒ نے عنوان کے ذریعے سے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سنن نسائی میں ہے کہ اس نے دو رکعت ادا کی تھیں۔ ممکن ہے کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھی ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے سورۂ فاتحہ پڑھ، پھر قرآن سے جو تجھے میسر ہو اسے تلاوت کر۔‘‘(مسند أحمد:340/4) اس تفصلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:2/364،360)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز کے بعد اس نے آ کر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جاکر دوبارہ نماز پڑھ، کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آ کر پھر آپ ﷺ کو سلام کیا، آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ دوبارہ جاکر نماز پڑھ، کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین بار اسی طرح ہوا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا۔ میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے آپ مجھے سکھلائیے۔ آپ نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو (پہلے) تکبیر کہہ پھر قرآن مجید سے جو کچھ تجھ سے ہو سکے پڑھ، اس کے بعد رکوع کر اور پوری طرح رکوع میں چلا جا۔ پھر سر اٹھا اور پوری طرح کھڑا ہو جا۔ پھر جب تو سجدہ کرے تو پوری طرح سجدہ میں چلا جا۔ پھر (سجدہ سے) سر اٹھا کر اچھی طرح بیٹھ جا۔ دوبارہ بھی اسی طرح سجدہ کر۔ یہی طریقہ نماز کے تمام (رکعتوں میں) اختیار کر۔
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث کو بروایت رفاعہ بن رافع ابن ابی شیبہ نے یوں روایت کیا کہ اس شخص نے رکوع اور سجدہ پورے طور پر ادا نہیں کیا تھا۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے اسے نماز لوٹانے کا حکم فرمایا۔ یہی ترجمہ باب ہے۔ ثابت ہوا کہ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے ہر رکن کا ادا کرنا فرض ہے۔ اس روایت بخاری میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پڑھ جو تجھے قرآن سے آسان ہو۔ مگر رفاعہ بن رافع کی روایت ابن ابی شیبہ میں صاف یوں مذکو رہے۔ ثم اقرأ بأم القرآن وما شاءاللہ۔ یعنی پہلے سورۃ فاتحہ پڑھ پھر جو آسان ہو قرآن کی تلاوت کر۔ اس تفصیل کے بعد اس روایت سے سورۃ فاتحہ کی عدم رکنیت پر دلیل پکڑنے والا یا تو تفصیلی روایات سے نا واقف ہے یا پھر تعصب کا شکار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Once the Prophet (ﷺ) entered the mosque, a man came in, offered the prayer and greeted the Prophet. The Prophet (ﷺ) returned his greeting and said to him, "Go back and pray again for you have not prayed." The man offered the prayer again, came back and greeted the Prophet. He said to him thrice, "Go back and pray again for you have not prayed." The man said, "By Him Who has sent you with the truth! I do not know a better way of praying. Kindly teach me how to pray." He said, "When you stand for the prayer, say Takbir and then recite from the Qur'an what you know and then bow with calmness till you feel at ease, then rise from bowing till you stand straight. Afterwards prostrate calmly till you feel at ease and then raise (your head) and sit with Calmness till you feel at ease and then prostrate with calmness till you feel at ease in prostration and do the same in the whole of your prayer."