تشریح:
1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطاب اہل بصرہ سے ہے اور بصرہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعد ہوئی ہے، اس لیے انھوں نےفرمایا کہ اس حدیث کو میرے بعد سنانے والا کوئی نہیں ملے گا۔ پہلی حدیث میں رفع علم کو قیامت کی علامت قراردیا گیا تھا اور اس میں قلت علم بتایا گیا ہے۔ اس میں تضاد نہیں ہے کیونکہ کم ہونا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس کا ختم ہوجانا آخری مرحلہ ہوگا، یعنی قیامت کے قریب آہستہ آہستہ علم کم ہونا شروع ہوجائے گا، بالآخر ختم ہوجائے گا، اس لیے علم باقی رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ سلسلہ تعلیم کو مضبوط کیا جائے تاکہ ایک عالم اٹھے تو دوسرا اس کے مقام کو سنبھال لے۔ (فتح الباري: 236/1)
2۔ قرب قیامت کے وقت مردوں کے کم اور عورتوں کے بکثرت ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایسے حالات میں لڑائیاں بہت ہوں گی۔ ایک حکومت دوسری حکومت پر چڑھائی کرے گی۔ جیساکہ امریکہ نے پہلے افغانستان پر حملہ کیا اور آج عراق پر چڑھائی کیے ہوئے ہے، کل کسی اور ملک کی باری آئے گی۔ ان لڑائیوں میں مرد مارے جائیں گے اورعورتیں بکثرت رہ جائیں گی۔ یہ تعداد اس درجے بڑھے گی کہ ایک ایک مرد کی نگرانی میں پچاس پچاس عورتیں ہوجائیں گی۔ یہ مفہوم نہیں کہ ایک مرد جائز وناجائز پچاس پچاس عورتوں کوگھر میں ڈال لے گا۔ (فتح الباري: 236/1)
3۔ ان احادیث میں مندرجہ ذیل علامات قیامت بیان ہوئی ہیں: فقدان علم، شراب خوری، زناکاری، کثرت نسواں، قلت مرداں۔ دراصل دنیا کے نظام کا تعلق پانچ چیزوں سےہے، دین، عقل، نسب، مال اور نفس۔ جب یہ پانچوں زوال پذیر ہونے لگیں تو قیامت قریب آلگے گی۔ دین کا محافظ علم ہے۔ شراب عقل کی دشمن ہے۔ زنا نسب کے لیے زہر قاتل ہے۔ باہمی جنگ وجدال سے مال اور نفس کااتلاف ہوتا ہے۔ ان سب علامتوں میں پہلے رفع علم ہوگا جس کا آج ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ (فتح الباري: 236/1)