تشریح:
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں پورے وثوق سے کوئی حکم بیان نہیں کیا، اس لیے مقصود بیان کرنے میں شارحین کا اختلاف ہے۔ شاید امام صاحب ؒ اس بات پر تنبیہ کرنا چاہتے ہوں کہ ناک کا زمین پر رکھنے کا حکم پیشانی جیسا ہے، البتہ بعض شارحین نے اس عنوان سے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ سجدہ کرتے ہوئے صرف ناک پر اکتفا جائز ہے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ شریعت نے ناک اور پیشانی کو ایک عضو قرار دیا ہے۔ ویسے بھی ناک کی اوپر والی ہڈی کا آغاز پیشانی کی ہڈی سے ہوتا ہے، اس لیے ناک کو پیشانی سے کیونکر الگ کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ناک کی طرف اشارہ یہ بتانے کے لیے فرمایا کہ پیشانی پر سجدے کی تکمیل تب ہو گی جب اس کے ساتھ ناک کو بھی زمین پر رکھا جائے۔ واضح رہے کہ فقہاء نے اس سلسلے میں ایک عجیب جزی بیان کی ہے کہ اگر سجدے میں دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنے زمین پر نہ رکھے جائیں تو اجماع ہے کہ نماز صحیح ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری (عربی) :70/1) یہ موقف مذکورہ حدیث کے خلاف ہے، نیز عقل بھی اسے تسلیم نہیں کرتی۔ بھلا دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے زمین پر رکھے بغیر سجدہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔