تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا یہ طویل حدیث بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کیچڑ آلود ہونے کے باوجود اپنی ناک کو زمین پر لگایا ہے اور کیچڑ وغیرہ کی کوئی پروا نہیں کی۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ناک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں پہلے عنوان میں کچھ عموم تھا، اس باب میں عمومیت کو خاص کر دیا گیا ہے۔ گویا آپ نے اشارہ کیا ہے کہ ناک پر سجدہ کرنا امر مؤکد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عذر معقول کے باوجود اسے ترک نہیں کیا بلکہ ناک پر سجدہ کرنے کا اہتمام فرمایا۔ جو حضرات اس حدیث کی بنا پر ناک پر سجدہ کرنے کو کافی خیال کرتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں کیونکہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوران سجدہ میں پیشانی اور ناک کو زمین پر لگانا ضروری ہے۔ اگر اس میں کچھ رخصت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کم از کم اپنی پیشانی اور ناک کو کیچڑ سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں نمازی کی پیشانی پر زمین کی گردوغبار لگ جائے تو نماز ہی میں اسے صاف کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:386/2)
(3) اس حدیث کے متعلقہ دیگر مباحث کو ہم کتاب فضل لیلة القدر (حدیث: 2016) میں بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔