Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: One should say Takbir while going in prostration)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ ( سجدہ کرتے وقت ) پہلے ہاتھ زمین پر ٹیکتے، پھر گھٹنے ٹیکتے۔اس تعلیق کو ابن خزیمہ اور طحاوی نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ امام مالک کا یہی قول ہے۔ لیکن باقی تینوں اماموں نے یہ کہاہے کہ پہلے گھٹنے ٹیکے پھر ہاتھ زمین پر رکھے۔ نووی نے کہا دلیل کی رو سے دونوں مذہب برابر ہیں اور اسی لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے گھٹنے پہلے رکھے چاہے ہاتھ۔ اور ابن قیم نے وائل بن حجر کی حدیث کو ترجیح دی ہے، جس میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )درست یہ ہے کہ حدیث ابوہریرہ راجح اور اصح ہے جو مسلم میں موجود ہے اور اس میں ہاتھ پہلے اور گھٹنے بعد میں ٹیکنے کا مسئلہ بیان ہے۔
815.
ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے، خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل، ماہ رمضان میں بھی اور اس کے علاوہ بھی۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو بھی اللہ أکبر کہتے، پھر (رکوع سے اٹھتے وقت) سمع الله لمن حمده کہتے۔ بعد ازاں سجدہ کرنے سے پہلے ربنا ولك الحمد کہتے۔ اس کے بعد جب سجدے کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرتے تو بھی اللہ أکبر کہتے۔ پھر جب سجدوں سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔ الغرض ہر رکعت میں اسی طرح کرتے تاآنکہ نماز سے فارغ ہو جاتے۔ جب اپنی نماز ختم کر لیتے تو فرماتے: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں تم سب سے رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔ بےشک یہی آپ کی نماز ہوتی تھی تاآنکہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
794
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
803
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
803
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
803
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سجدے کو جاتے ہوئے قولی اور عملی کیفیت بیان کی ہے۔ قولی کیفیت یہ ہے کہ اللہ اکبر کہتا ہوا سجدے کے لیے نیچے جھکے جیسا کہ آئندہ مرفوع حدیث سے ثابت ہو گا اور عملی کیفیت یہ ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے معلوم ہو رہا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل صحیح ابن خزیمہ میں متصل سند سے بیان ہوا ہے اور اس کے آگے یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمۃ:1/319) اگرچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان اضافی الفاظ کو وہم قرار دیا ہے لیکن ان کا موقف مرجوح ہے۔ (فتح الباری:2/376) پھر اس عمل کی تائید حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے اور اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:840) اگرچہ اس کے معارض حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے وقت اپنے گھٹنے زمین پر ہاتھوں سے پہلے رکھتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ،الصلاۃ،حدیث:882) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث ابی ہریرہ کو حضرت وائل بن حجر کی روایت سے قوی قرار دیا ہے۔ (بلوغ المرام،حدیث:245) کیونکہ حدیث وائل کو بیان کرنے میں شریک راوی تنہا ہے اور جب کسی روایت کو یہ تنہا بیان کرے تو محدثین کے نزدیک اس قسم کی روایت محل نظر ہوتی ہے، نیز اونٹ جب نیچے بیٹھتا ہے تو پہلے اپنے گھٹنے زمین پر ٹیکتا ہے پھر بیٹھتا ہے اور بحالت سجدہ اسی کیفیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
اور نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ ( سجدہ کرتے وقت ) پہلے ہاتھ زمین پر ٹیکتے، پھر گھٹنے ٹیکتے۔اس تعلیق کو ابن خزیمہ اور طحاوی نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ امام مالک کا یہی قول ہے۔ لیکن باقی تینوں اماموں نے یہ کہاہے کہ پہلے گھٹنے ٹیکے پھر ہاتھ زمین پر رکھے۔ نووی نے کہا دلیل کی رو سے دونوں مذہب برابر ہیں اور اسی لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے گھٹنے پہلے رکھے چاہے ہاتھ۔ اور ابن قیم نے وائل بن حجر کی حدیث کو ترجیح دی ہے، جس میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )درست یہ ہے کہ حدیث ابوہریرہ راجح اور اصح ہے جو مسلم میں موجود ہے اور اس میں ہاتھ پہلے اور گھٹنے بعد میں ٹیکنے کا مسئلہ بیان ہے۔
حدیث ترجمہ:
ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے، خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل، ماہ رمضان میں بھی اور اس کے علاوہ بھی۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو بھی اللہ أکبر کہتے، پھر (رکوع سے اٹھتے وقت) سمع الله لمن حمده کہتے۔ بعد ازاں سجدہ کرنے سے پہلے ربنا ولك الحمد کہتے۔ اس کے بعد جب سجدے کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرتے تو بھی اللہ أکبر کہتے۔ پھر جب سجدوں سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔ الغرض ہر رکعت میں اسی طرح کرتے تاآنکہ نماز سے فارغ ہو جاتے۔ جب اپنی نماز ختم کر لیتے تو فرماتے: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں تم سب سے رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔ بےشک یہی آپ کی نماز ہوتی تھی تاآنکہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ (سجدہ کرتے وقت) گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ (زمین پر) رکھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ؓ تمام نمازوں میں تکبیر کہا کرتے تھے۔ خواہ فرض ہوں یا نہ ہوں۔ رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور مہینہ ہو، چنانچہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور اس کے بعد ر بنا و لك الحمد سجدہ سے پہلے، پھر جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر دوسرا سجدہ کرتے وقت اللہ أکبر کہتے۔ اسی طرح سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ أکبر کہتے۔ دو رکعات کے بعد قعدہ اولی کرنے کے بعد جب کھڑے ہوتے تب بھی تکبیر کہتے اور آپ ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہونے تک۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرماتے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم میں سب سے زیادہ نبی کریم ﷺ کی نماز سے مشابہ ہوں۔ اور آپ اسی طرح نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakr (RA) bin 'Abdur Rahman Ibn Harith bin Hisham and Abu Salama bin 'Abdur Rahman (RA): Abu Hurairah (RA) used to say Takbir in all the prayers, compulsory and optional -- in the month of Ramadan or other months. He used to say Takbir on standing for prayer and on bowing; then he would say, "Salmi'a-l-lahu Liman hamida," and before prostrating he would say "Rabbana walaka-l-hamd." Then he would say Takbir on prostrating and on raising his head from the prostration, then another Takbir on prostrating (for the second time), and on raising his head from the prostration. He also would say the Takbir on standing from the second Rak'a. He used to do the same in every Rak'a till he completed the prayer. On completion of the prayer, he would say, "By Him in Whose Hands my soul is! No doubt my prayer is closer to that of Allah's Apostle (ﷺ) than yours, and this was His prayer till he left this world." And Abu Hurairah (RA) said, "When Allah's Apostle (ﷺ) raised his head from (bowing) he used to say "Sami' a-l-lahu Liman hamida, Rabbana walakal-hamd." He Would invoke Allah for some people by naming them: "O Allah! Save Al-Walid bin Al-Walid and Salama bin Hisham and 'Aiyash bin Abi Rabi'a and the weak and the helpless people among the faithful believers O Allah! Be hard on the tribe of Mudar and let them suffer from famine years like that of the time of Joseph." In those days the Eastern section of the tribe of Mudar was against the Prophet.