تشریح:
(1) اس حدیث میں سر کے بال مراد ہیں۔ انہیں دوران نماز میں سمیٹنے کی ممانعت ہے کیونکہ وہ بھی نمازی کے ساتھ اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہیں۔ اگر انہیں سمیٹ کر جوڑا بنا لیا جائے تو دوران نماز میں وہ شیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو رافع نے حضرت حسن بن علی کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بالوں کو سمیٹ کر گدی پر جمع کر رکھا تھا تو انہوں نے انہیں کھول دیا اور رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بیان کیا کہ ایسا کرنا شیطان کو بیٹھنے کے لیے جگہ مہیا کرنا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:646)
(2) دوران نماز میں بالوں اور کپڑوں کو سمیٹنے کا حکم امتناعی نماز کے ساتھ خاص ہے یا اپنے عموم پر ہے؟ اس کے متعلق بعض فقہاء کا خیال ہے کہ دوران نماز میں ایسا کرنا منع ہے۔ اگر نماز سے پہلے اپنے بالوں اور کپڑوں کو سمیٹ لیا جائے اور اسے حالت میں نماز پڑھ لی جائے تو ممانعت نہیں لیکن جمہور محدثین نے اس حکم امتناعی کو عموم پر محمول کیا ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، خواہ دوران نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ کپڑوں اور بالوں کو سمیٹ لیا جائے، بہرحال اس حالت میں نماز پڑھنا درست نہیں۔
(3) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ نماز مہذبانہ شکل و صورت میں ادا کرنی چاہیے۔ بالوں کو سمیٹنا اور انہیں سر پر جوڑا بنا لینا عربوں کے ہاں غیر مہذب عادت تھی، اس لیے یہ حالت نماز کے لیے غیر موزوں قرار دی گئی ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک بالوں کو کھلا چھوڑ کر نماز پڑھنے کا استحباب اس لیے ہے کہ بال بھی سجدہ کرتے ہیں، اس لیے انہیں سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی بات مان لی جائے تو حکم امتناعی صرف وقتی حالات کے پیش نظر ہو گا کیونکہ اگر کسی وقت لوگ بالوں کو باندھنا یا انہیں سمیٹ کر رکھنا اچھا خیال کرتے ہوں تو کیا اس وقت ایسی حالت میں نماز پڑھنا مستحسن ہو گا؟ ہرگز نہیں! اس لیے نماز کے معاملات کو خارجی عادات کے ساتھ مربوط نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔