تشریح:
(1) نماز میں جو ضروری امور ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ ہیں جن کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو سکتی ہے اور دوسرے وہ جن کی بجا آوری ضروری ہوتی ہے۔ اگر وہ رہ جائیں تو ان کی تلافی سجدۂ سہو سے نہیں ہو سکتی۔ پہلا تشہد ایک ایسا امر ہے کہ اگر رہ جائے تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ممکن ہے۔
(2) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں نے ترک تشہد پر سبحان اللہ بھی کہا لیکن آپ اسے ادا کرنے کے لیے دوبارہ نہیں بیٹھے بلکہ نماز کے آخر میں سجدۂ سہو سے اس کی تلافی فرمائی ہے۔ اگر فرض، یعنی رکن ہوتا تو اسی وقت بیٹھ جاتے اور اسے بجا لاتے۔ امام شوکانی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’تشہد اول کے لیے حکم ہے، اگر وہ بھول کی وجہ سے رہ جائے تو سجدۂ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔‘‘ تشہد اول کے ضروری ہونے کے لیے اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1230)
(3) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب احادیث میں لفظ جلوس، کسی قید کے بغیر استعمال ہو تو اس سے مراد جلوس تشہد ہوتا ہے۔ اسی سے حدیث کی عنوان مذکور سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔ (فتح الباري:402/2)