Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To invoke and glorify Allah in prostration)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
829.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بکثرت اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اس طرح آپ قرآنی حکم کی تعمیل کرتے تھے۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بندہ اپنے رب کے بہت زیادہ قریب بحالت سجدہ ہوتا ہے، لہذا تم اس حالت میں بکثرت دعا کیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1083 (482)) ایک روایت میں ہے کہ سجدے میں کوشش سے دعا کیا کرو کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1074 (479)) ان روایات کی وجہ سے شاید کہا جا سکے کہ سجدے میں دعا ہی کرنی چاہیے۔ اس میں تسبیح وغیرہ نہ پڑھی جائے۔ امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرمائی کہ سجدے میں تسبیح پڑھنا اور دعا کرنا دونوں ثابت ہیں۔ مذکورہ حدیث سے ثابت ہے کہ رکوع میں دعا اور سجدے میں تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور جس روایت میں ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدے میں کوشش سے دعا کرو۔ یہ روایت مذکورہ حدیث کے معارض نہیں۔ (فتح الباري:388/2) (2) رسول اللہ ﷺ سے دوران نماز میں متعدد مقامات میں دعائیں کرنا ثابت ہیں۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: ٭ تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے ٭ رکوع کی حالت میں ٭ قومے کی حالت میں ٭ سجدے کی حالت میں ٭ دونوں سجدوں کے درمیان ٭ تشہد کے بعد سلام سے قبل۔ فرائض میں دوران جماعت چونکہ مقتدی حضرات کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کا حکم ہے، اس لیے فرائض میں اگر مقتدی حضرات پر گرانی نہ ہو تو بکثرت دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) سورۂ نصر میں رسول اللہ ﷺ کو استغفار کا حکم ہوا تھا، یہ اسی قرآنی حکم کی تعمیل تھی کہ آپ کثرت کے ساتھ رکوع اور سجدے میں اس دعا کو پڑھا کرتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
808
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
817
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
817
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
817
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بکثرت اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اس طرح آپ قرآنی حکم کی تعمیل کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بندہ اپنے رب کے بہت زیادہ قریب بحالت سجدہ ہوتا ہے، لہذا تم اس حالت میں بکثرت دعا کیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1083 (482)) ایک روایت میں ہے کہ سجدے میں کوشش سے دعا کیا کرو کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1074 (479)) ان روایات کی وجہ سے شاید کہا جا سکے کہ سجدے میں دعا ہی کرنی چاہیے۔ اس میں تسبیح وغیرہ نہ پڑھی جائے۔ امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرمائی کہ سجدے میں تسبیح پڑھنا اور دعا کرنا دونوں ثابت ہیں۔ مذکورہ حدیث سے ثابت ہے کہ رکوع میں دعا اور سجدے میں تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور جس روایت میں ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدے میں کوشش سے دعا کرو۔ یہ روایت مذکورہ حدیث کے معارض نہیں۔ (فتح الباري:388/2) (2) رسول اللہ ﷺ سے دوران نماز میں متعدد مقامات میں دعائیں کرنا ثابت ہیں۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: ٭ تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے ٭ رکوع کی حالت میں ٭ قومے کی حالت میں ٭ سجدے کی حالت میں ٭ دونوں سجدوں کے درمیان ٭ تشہد کے بعد سلام سے قبل۔ فرائض میں دوران جماعت چونکہ مقتدی حضرات کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کا حکم ہے، اس لیے فرائض میں اگر مقتدی حضرات پر گرانی نہ ہو تو بکثرت دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) سورۂ نصر میں رسول اللہ ﷺ کو استغفار کا حکم ہوا تھا، یہ اسی قرآنی حکم کی تعمیل تھی کہ آپ کثرت کے ساتھ رکوع اور سجدے میں اس دعا کو پڑھا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے، سفیان ثوری سے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے مسلم بن صبیح سے بیان کیا، انہوں نے مسروق سے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سجدہ اور رکوع میں اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي (اس دعا کو پڑھ کر) آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
سورۃ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ میں ہے ﴿فَسَبِّح بِحَمدِرَبِّکَ وَاستَغفِرہُ﴾( اپنے رب کی پاکی بیان کر اور اس سے بخشش مانگ ) اس حکم کی روشنی میں آپ ﷺ سجدہ میں مذکورہ دعا پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یا اللہ میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اے اللہ تو مجھ کو بخش دے۔ اس دعا میں تسبیح اور تحمید اور استغفار تینوں موجود ہیں اس لیے رکوع اور سجدہ میں اس کا پڑھنا افضل ہے علاوہ ازیں رکوع میں سُبحَانَ رَبیِّ العَظِیم اور سجدہ میں سُبحَانَ رَبیِّ الاَعلٰی مسنونہ دعائیں بھی آیات قرآنیہ ہی کی تعمیل ہیں جیسا کہ مختلف آیات میں حکم ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ سورہ اِذَا جَآئَ نَصرُ اللّٰہِ کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ رکوع وسجود میں اس دعا کو پڑھتے رہے یعنی سُبحَانَك اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی علامہ امام شوکانی ؒ اس کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں بتوفیقك لي وھدایتك وفضلك علی سبحنك لا بحولي وقوتي۔یعنی یا اللہ میں محض تیری توفیق اور ہدایت اور فضل سے تیری پاکی بیان کرتا ہوں اپنی طرف سے اس کار عظیم کے لیے مجھ میں کوئی قوت نہیں ہے۔ بعض روایات میں رکوع وسجدہ میں یہ دعا پڑھنی بھی آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے سُبُّوح قُدُّوس رَبُّ المَلَائِکَة وَالرُّوحِ (احمد مسلم وغیرہ) یعنی میرا رکوع یا سجدہ اس ذات واحد کے لیے ہے جو جملہ نقائص اور شرکاء سے پاک ہے وہ مقدس ہے وہ فرشتوں کا اور جبرئیل کا بھی پروردگار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) used to say frequently in his bowing and prostrations "Subhanaka-Allahumma Rabbana Wabihamdika, Allahumma Ighfir-li" (I honor Allah from all what (unsuitable things) is ascribed to Him, O Allah! Our Lord! All praises are for You. O Allah! Forgive me). In this way he was acting on what was explained to him in the Holy Qur'an.