Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The Prophet's Sunna (legal way) for the sitting in the Tashah-hud [in the Salat (prayer)])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ام الدرداءؓ فقیہہ تھیں اور وہ نماز میں (بوقت تشہد) مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔
840.
حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر لے گئے۔ اور جب آپ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے، پھر اپنی کمر کو خمیدہ کیا۔ اور جب آپ نے سر اٹھایا تو ایسے سیدھے کھڑے ہوئے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی۔ اور جب آپ نے سجدہ کیا تو نہ آپ دونوں ہاتھوں کو بچھائے ہوئے تھے اور نہ ہی سمیٹے ہوئے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں۔ اور جب دو رکعتوں میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں آگے کرتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، پھر اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ جاتے۔
تشریح:
(1) یہ روایت مختلف طرق سے کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئی ہے۔ مذکورہ روایت کے مطابق پہلے تشہد میں افتراش اور دوسرے میں تورک کا ذکر ہے۔ اس کے تین طریقے احادیث میں بیان ہوئے ہیں: ٭ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں ران کے نیچے سے آگے بڑھا دیا جائے پھر سرین پر بیٹھا جائے جیسا کہ حدیث بالا میں مذکور ہے۔ ٭ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ چوتھی رکعت میں ہوتے تو بائیں سرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک جانب سے نکال لیتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:731) ٭ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان میں کر لیتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1307(579)) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تورک ثابت ہے اور آپ کبھی ایک طریقہ استعمال کرتے اور کبھی دوسرا، اور تورک اس تشہد میں ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اور علت میں اختلاف ہے۔ امام احمد کے نزدیک اس کی علت "تفریق" ہے، یعنی پہلے اور دوسرے تشہد میں فرق کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز فجر اور نماز جمعہ میں تورک نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی علت تخفیف ہے، یعنی تشہد اول چھوٹا ہوتا ہے اس میں تورک کی ضرورت نہیں اور تشہد ثانی طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تخفیف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل قعود کے پیش نظر ہر نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو گا۔ نماز فجر اور نماز جمعہ میں بھی تورک کیا جائے۔ بہرحال ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ روایات میں صراحت ہے کہ جس تشہد میں سلام پھیرنا ہوتا اس میں تورک کیا جاتا۔ ابن حبان کی روایت میں نماز کے خاتمے کے الفاظ ہیں۔ (2) ایک روایت ہے کہ اس مجلس میں موجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کے بیان کی تصدیق کی اور بیک زبان فرمایا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:730) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سہل بن سعد، ابو اسید ساعدی، محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم نے نماز کا طریقہ عملی طور پر اور بعض روایات کے مطابق زبان سے بیان فرمایا ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:397/2) (3) اس روایت کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ استنادی مباحث بھی ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ اس حدیث کی سند میں تصریح سماع نہ تھی، امام بخاری نے دوسرے طریق بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سند کے تمام راویوں نے اپنے شیوخ سے اس حدیث کو سنا ہے۔ ٭ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت کو جعفر فریابی، علامہ جوزقی اور ابراہیم الحربی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:400/2) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ایک اصولی اور تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابئ جلیل نے اس حدیث کا آغاز طریقۂ وضو اور استقبال قبلہ کے ذکر سے کیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
818
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
828
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
828
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
828
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
نماز میں بیٹھنے کے چار مواقع ہیں: ٭ دو سجدوں کے درمیان ٭ جلسۂ استراحت ٭ پہلے اور دوسرے تشہد میں بیٹھنا ٭ اس عنوان میں پہلے اور دوسرے تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ بتایا جائے گا۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی بیوی صحابیہ تھیں جن کا نام خیرہ بنت ابی حدرد ہے۔ ان کی کنیت ام درداء ہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے دوسری شادی ایک ہجیمہ نامی تابعیہ عورت سے کی جو ام درداء صغری کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ مذکورہ یہی ام درداء صغری مراد ہیں۔ اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" (2/125) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (عمدۃ القاری:4/570) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو بطور دلیل نہیں بلکہ تائید و تقویت کے لیے پیش کیا ہے کیونکہ تابعین کے اقوال شرعی مسائل کے ثبوت کے لیے پیش نہیں کیے جا سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ تشہد بیٹھنے سے مراد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے جیسا کہ بعض فقہاء کا موقف ہے۔ (فتح الباری:2/395)
ام الدرداءؓ فقیہہ تھیں اور وہ نماز میں (بوقت تشہد) مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر لے گئے۔ اور جب آپ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے، پھر اپنی کمر کو خمیدہ کیا۔ اور جب آپ نے سر اٹھایا تو ایسے سیدھے کھڑے ہوئے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی۔ اور جب آپ نے سجدہ کیا تو نہ آپ دونوں ہاتھوں کو بچھائے ہوئے تھے اور نہ ہی سمیٹے ہوئے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں۔ اور جب دو رکعتوں میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں آگے کرتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، پھر اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت مختلف طرق سے کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئی ہے۔ مذکورہ روایت کے مطابق پہلے تشہد میں افتراش اور دوسرے میں تورک کا ذکر ہے۔ اس کے تین طریقے احادیث میں بیان ہوئے ہیں: ٭ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں ران کے نیچے سے آگے بڑھا دیا جائے پھر سرین پر بیٹھا جائے جیسا کہ حدیث بالا میں مذکور ہے۔ ٭ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ چوتھی رکعت میں ہوتے تو بائیں سرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک جانب سے نکال لیتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:731) ٭ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان میں کر لیتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1307(579)) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تورک ثابت ہے اور آپ کبھی ایک طریقہ استعمال کرتے اور کبھی دوسرا، اور تورک اس تشہد میں ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اور علت میں اختلاف ہے۔ امام احمد کے نزدیک اس کی علت "تفریق" ہے، یعنی پہلے اور دوسرے تشہد میں فرق کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز فجر اور نماز جمعہ میں تورک نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی علت تخفیف ہے، یعنی تشہد اول چھوٹا ہوتا ہے اس میں تورک کی ضرورت نہیں اور تشہد ثانی طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تخفیف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل قعود کے پیش نظر ہر نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو گا۔ نماز فجر اور نماز جمعہ میں بھی تورک کیا جائے۔ بہرحال ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ روایات میں صراحت ہے کہ جس تشہد میں سلام پھیرنا ہوتا اس میں تورک کیا جاتا۔ ابن حبان کی روایت میں نماز کے خاتمے کے الفاظ ہیں۔ (2) ایک روایت ہے کہ اس مجلس میں موجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کے بیان کی تصدیق کی اور بیک زبان فرمایا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:730) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سہل بن سعد، ابو اسید ساعدی، محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم نے نماز کا طریقہ عملی طور پر اور بعض روایات کے مطابق زبان سے بیان فرمایا ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:397/2) (3) اس روایت کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ استنادی مباحث بھی ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ اس حدیث کی سند میں تصریح سماع نہ تھی، امام بخاری نے دوسرے طریق بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سند کے تمام راویوں نے اپنے شیوخ سے اس حدیث کو سنا ہے۔ ٭ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت کو جعفر فریابی، علامہ جوزقی اور ابراہیم الحربی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:400/2) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ایک اصولی اور تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابئ جلیل نے اس حدیث کا آغاز طریقۂ وضو اور استقبال قبلہ کے ذکر سے کیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ام درداء ؓ فقیہہ تھیں اور وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھا کرتی تھیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے خالد سے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا (دوسری سند) اور کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، اور ان سے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابوحمید ساعدی ؓ نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکادیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو (زمین پر) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ ﷺ دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔ لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اور یزید بن محمد بن حلحلہ سے سنا اور محمد بن حلحلہ نے ابن عطاء سے، اور ابوصالح نے لیث سے کُلُّ فَقارٍ مَکَانَه نقل کیا ہے اور ابن المبارک نے یحییٰ بن ایوب سے بیان کیا انھوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا کہ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ان سے حدیث میں کُلُّ فَقَار بیان کیا
حدیث حاشیہ:
صحیح ابن خزیمہ میں دس بیٹھنے والے اصحاب کرام ؓ میں سہل بن سعد اور ابوحمید ساعدی اور محمد بن مسلمہ اور ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم کے نام بتلائے گئے ہیں باقی کے نام معلوم نہیں ہو سکے یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ کہیں مجمل اور کہیں مفصل مروی ہے اس میں دوسرے قعدے میں تو اس کا ذکر ہے یعنی سرین پر بیٹھنا دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں کو آگے کر کے تلے سے دائیں طرف باہر نکالنا اور دونوں سرین زمین سے ملا کر بائیں ران پر بیٹھنا یہ تورک چار رکعت والی نماز میں اور نماز فجر کی آخری رکعت میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی امام احمدبن حنبل کا یہی مسلک ہے آخر حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک کی جو روایت ہے اسے فریابی اور جوزنی اور ابراہیم حربی نے وصل کیا ہے سنن نماز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک اصولی تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin 'Amr bin 'Ata': I was sitting with some of the companions of Allah's Apostle (ﷺ) and we were discussing about the way of praying of the Prophet. Abu Humaid As-Saidi said, "I remember the prayer of Allah's Apostle (ﷺ) better than any one of you. I saw him raising both his hands up to the level of the shoulders on saying the Takbir; and on bowing he placed his hands on both knees and bent his back straight, then he stood up straight from bowing till the entire vertebrate took their normal positions. In prostrations, he placed both his hands on the ground with the forearms away from the ground and away from his body, and his toes were facing the Qibla. On sitting In the second Rak'a he sat on his left foot and propped up the right one; and in the last Rak'a he pushed his left foot forward and kept the other foot propped up and sat over the buttocks”