تشریح:
(1) بعض فقہاء کا موقف ہے کہ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ سلام کہا جائے جیسا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے آخر میں صرف ایک مرتبہ السلام علیکم کہتے تھے۔ (شرح معاني الآثار:266/1، والاستذکار:291/4) لیکن اکثر فقہاء و محدثین نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ نماز کے آخر میں دو دفعہ سلام کہا جائے ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب، اسے سلام نماز بھی کہتے ہیں۔ تقریبا بیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دو دفعہ سلام کہنا مروی ہے اور ایک دفعہ سلام کہنے کی روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ حضرت ابن مبارک نے اس روایت کو دو سلام سے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:601/4) ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ایک سلام پر اکتفا بھی جائز ہے، اگرچہ اکثر و بیشتر آپ کی عادت مبارکہ دو سلام کی تھی، اس لیے اسے وہم قرار دینا محل نظر ہے، نیز یہ سلام سامنے منہ کر کے ہی پھیرنا ہے۔ دیکھیے: (أصل صفة صلاة النبي صلی اللہ علیه وسلم: 1030/3) بعض روایات میں ہے کہ امام کو بھی سلام کہنا چاہیے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں امام کو سلام کہنے کا حکم دیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1001) اس کی توجیہ بعض شارحین نے بایں طور فرمائی ہے کہ ایک سلام دائیں جانب، دوسرا بائیں جانب والوں کو، اور تیرے سامنے امام کو کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے کیونکہ امام کو سلام کہنے کا مطلب ہے کہ جو شخص دائیں جانب ہے وہ بائیں سلام میں اور جو بائیں جانب ہے وہ دائیں سلام میں امام کے لیے سلام کی نیت کرے اور جو امام کے پیچھے ہے وہ پہلے سلام میں امام کی نیت کرے۔
(2) حدیث کی عنوان سے مطابقت اسی طرح ہے کہ روایت کے مطابق پہلے رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، پھر قوم نے بھی سلام پھیر دیا۔ اس میں تیسرے سلام کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ (عمدة القاري:602/4) حافظ ابن حجر ؒ نے بھی لکھا ہے کہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی متابعت میں آپ کے سلام جیسا سلام کیا اور آپ کا سلام ایک تھا جس سے نماز ختم کی گئی یا اس کے ساتھ دوسرا سلام بھی تھا، تیسرے سلام کے لیے دلیل درکار ہے جیسا کہ بعض مالکی حضرات کا موقف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مؤخر الذکر موقف کی تردید کے لیے عنوان بندی کی ہے اور حدیث پیش کی ہے۔ (فتح الباري:418/2) واللہ أعلم۔