باب: اس شخص کی دلیل جو پہلے تشہد کو ( چار رکعت یا تین رکعت نماز میں ) واجب نہیں جانتا ( یعنی فرض )
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Whoever considered that the first Tashah-hud is not compulsory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ آنحضرت ﷺ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں۔
841.
حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ۔۔ جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور بنو عبدمناف کے حلیف، نیز نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے ۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن انہیں نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔
تشریح:
(1) نماز میں جو ضروری امور ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ ہیں جن کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو سکتی ہے اور دوسرے وہ جن کی بجا آوری ضروری ہوتی ہے۔ اگر وہ رہ جائیں تو ان کی تلافی سجدۂ سہو سے نہیں ہو سکتی۔ پہلا تشہد ایک ایسا امر ہے کہ اگر رہ جائے تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ممکن ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں نے ترک تشہد پر سبحان اللہ بھی کہا لیکن آپ اسے ادا کرنے کے لیے دوبارہ نہیں بیٹھے بلکہ نماز کے آخر میں سجدۂ سہو سے اس کی تلافی فرمائی ہے۔ اگر فرض، یعنی رکن ہوتا تو اسی وقت بیٹھ جاتے اور اسے بجا لاتے۔ امام شوکانی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’تشہد اول کے لیے حکم ہے، اگر وہ بھول کی وجہ سے رہ جائے تو سجدۂ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔‘‘ تشہد اول کے ضروری ہونے کے لیے اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1230) (3) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب احادیث میں لفظ جلوس، کسی قید کے بغیر استعمال ہو تو اس سے مراد جلوس تشہد ہوتا ہے۔ اسی سے حدیث کی عنوان مذکور سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔ (فتح الباري:402/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
819
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
829
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
829
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
829
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ پہلا تشہد نماز کا رکن یا فرض نہیں جس کے ترک سے نماز باطل ہو جائے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا تشہد کھڑے ہونے پر توجہ بھی دلائی لیکن آپ نے رجوع نہیں فرمایا بلکہ بعد میں اس ترک کی تلافی سجدۂ سہو سے فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تشہد اول فرض نہ تھا ورنہ اس کے ترک سے نماز باطل اور کالعدم ہو جاتی، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں حکم اور دلیلِ حکم کو بیان فرمایا ہے۔
کیونکہ آنحضرت ﷺ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ۔۔ جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور بنو عبدمناف کے حلیف، نیز نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے ۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن انہیں نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
(1) نماز میں جو ضروری امور ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ ہیں جن کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو سکتی ہے اور دوسرے وہ جن کی بجا آوری ضروری ہوتی ہے۔ اگر وہ رہ جائیں تو ان کی تلافی سجدۂ سہو سے نہیں ہو سکتی۔ پہلا تشہد ایک ایسا امر ہے کہ اگر رہ جائے تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ممکن ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں نے ترک تشہد پر سبحان اللہ بھی کہا لیکن آپ اسے ادا کرنے کے لیے دوبارہ نہیں بیٹھے بلکہ نماز کے آخر میں سجدۂ سہو سے اس کی تلافی فرمائی ہے۔ اگر فرض، یعنی رکن ہوتا تو اسی وقت بیٹھ جاتے اور اسے بجا لاتے۔ امام شوکانی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’تشہد اول کے لیے حکم ہے، اگر وہ بھول کی وجہ سے رہ جائے تو سجدۂ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔‘‘ تشہد اول کے ضروری ہونے کے لیے اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1230) (3) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب احادیث میں لفظ جلوس، کسی قید کے بغیر استعمال ہو تو اس سے مراد جلوس تشہد ہوتا ہے۔ اسی سے حدیث کی عنوان مذکور سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔ (فتح الباري:402/2)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ نبیﷺ دو رکعت کے بعد کھڑے ہو گئے اور واپس نہیں آئے۔
حدیث ترجمہ:
م سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ شعیب نے ہمیں خبر دی، انہوں نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن ہرمز نے بیان کیا جو مولی بن عبد المطلب (یا مولی ربیعہ بن حارث) تھے، کہ عبداللہ بن بحینہ ؓ جو صحابی رسول اور بن ی عبد مناف کے حلیف قبیلہ ازدشنوءہ سے تعلق رکھتے تھے، نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوں پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوگئے، چنانچہ سارے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جب نماز ختم ہونے والی تھی اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ نے اللہ أکبر کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دوسجدے کئے، پھر سلام پھیرا۔
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ نے اس مسئلہ پر یوں باب منعقد فرمایا ہے: باب الأمر بالتشھد الأول وسقوطه بالسھو۔یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود ؓ میں جو لفظ ''فقولا التحیات'' وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں: فیه دلیل لمن قال بوجوب التشھد الأوسط وھو أحمد في المشھود عینه واللیث وإسحاق وھو قول الشافعي وإلیه ذھب داود أبو ثور ورواہ النووي عن جمھور المحدثین۔یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔ حدیث مذکور سے امام بخاری ؒ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگر یہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکور بنی عبد مناف کے حلیف تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Buhaina (RA): (He was from the tribe of Uzd Shan'u'a and was the ally of the tribe of 'Abdul-Manaf and was one of the companions of the Prophet): Once the Prophet (ﷺ) led us in the Zuhr prayer and stood up after the second Rak'a and did not sit down. The people stood up with him. When the prayer was about to end and the people were waiting for him to say the Taslim, he said Takbir while sitting and prostrated twice before saying the Taslim and then he said the Taslim."